جب صوفی کلام کی آواز سنتے ہیں تو ذہن میں قوالوں کی ایک مخصوص شکل ابھرتی ہے جیسے مشرقی لباس، دھیمے ساز اور روح کو چھو جانے والے اشعار۔ مگر جب یہی کلام سفید فام خواتین کی آواز میں سنائی دےتو یہ تجربہ صرف چونکا دینے والا نہیں بلکہ حیران کن منظرہے۔
ایسا ہی ایک منظر کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو میں دیکھنے کو ملا جس میں مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے استاد نصرت فتح علی خان کا مشہور کلام ’’تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی‘‘ پیش کیا۔ زبان کی روانی میں کمی اور دھن کی ناہمواری کے باوجود ان کی آواز میں جو جذبہ، خلوص اور لگن تھی وہ دل کو چھو گئی۔
عورتوں کی پہلی قوال پارٹی — الٰہی صوفی قوال:
یہ گروہ “الٰہی صوفی قوال” کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی قیادت الیگزینڈرا ایمی کر رہی ہیں۔ ان کے شوہر، طاہر حسین فریدی قوال، خود بھی صوفی موسیقی کے میدان میں ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ اس گروہ کو خواتین کی پہلی عالمی قوال پارٹی کہا جا رہا ہے جس میں زیادہ تر سفید فام خواتین شامل ہیں جو اب انڈونیشیا کے سیاحتی مقام بالی کے پہاڑی علاقے ابود میں رہائش پذیر ہیں۔
قوالی، روایت اور خواتین کی انٹری:
قوالی برصغیر کی ایک قدیم روحانی موسیقی ہےجسے صدیوں سے مرد حضرات پیش کرتے آئے ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق، قوالی ایک ایسی محفل ہوتی ہے جہاں مرد قوال روحانی پیغامات کو موسیقی کے ذریعے ایک مردانہ سامعین تک پہنچاتے ہیں۔ ایسے میں عورتوں کا اس میں قدم رکھنا وہ بھی مغربی دنیا سے تعلق رکھنے والی خواتین کا، واقعی ایک انقلابی قدم ہے۔
کہاں سے آئیں یہ خواتین؟
الیگزینڈرا ایمی کے مطابق، یہ خواتین مختلف مذاہب، ثقافتوں اور پیشوں سے تعلق رکھتی ہیں — کوئی نرس، کوئی وکیل، کوئی استاد، تو کوئی موسیقی کی طالبہ۔ ان کا تعلق انڈونیشیا، روس، کینیڈا، سویڈن، سلووینیا اور سوئٹزرلینڈ سے ہے۔ وہ ہفتے میں دو دن ’’سما اسکول آف میوزک‘‘ میں قوالی سیکھنے آتی ہیں، جو خود طاہر قوال نے 2003 میں قائم کیا تھا۔
قوالی سے تعلق کیسے جڑا؟
اس کہانی کا آغاز ہوا طاہر قوال کے پہلے گروہ ’’فنا فی اللہ‘‘ سے، جو کہ کیلیفورنیا میں مقیم ایک اور قوال پارٹی ہے۔ طاہر ایک ڈاکیومنٹری پر کام کر رہے تھے جس میں انہوں نے ابیدہ پروین کا کلام ’’میں نعرۂ مستانہ‘‘ شامل کیا۔ جب ایمی نے یہ دیکھا، تو وہ جذبات سے مغلوب ہو گئیں۔اسی لمحے کچھ نیا شروع ہوا۔ انہوں نے قوالی سیکھنا شروع کی اور بالی میں ہونے والی ایک روحانی محفل میں اپنے شوہر کے ساتھ پرفارم کیا۔ محفل کے بعد چند خواتین نے ان سے رابطہ کیا اور یوں ’’الٰہی صوفی قوال‘‘ کی بنیاد پڑی۔
زبان، تربیت اور مشکلات:
یہ خواتین اردو، پنجابی اور فارسی جیسی مشکل زبانوں میں قوالی پیش کرتی ہیں۔ وہ ہر کلام کو ترجمہ کے ساتھ سیکھتی ہیں تاکہ صرف آواز نہیں بلکہ مفہوم بھی سامعین تک پہنچ سکے۔ ان کے ساتھ زبان کے اساتذہ اور اردو/پنجابی بولنے والے مہمان شریکِ تربیت ہوتے ہیں تاکہ تلفظ بہتر کیا جا سکے۔
تنقید اور ردعمل:
جہاں ان کے کام کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی، وہیں تنقید بھی کم نہ ہوئی۔ کچھ لوگوں نے ان کی زبان ، تلفظ اور ثقافتی نمائندگی پر سوالات اٹھائے۔ ’’گورے قوال کیوں بن رہے ہیں؟‘‘، ’’نصرت جیسے نہیں ہو سکتے‘‘ — یہ جملے عام ہیں۔ مگر ایمی اور طاہر کا ماننا ہے کہ وہ فن میں مخلص ہیں اور سیکھنے کے مسلسل سفر میں ہیں۔
بین الاقوامی پہچان:
الٰہی صوفی قوال گروہ اب تک کئی ممالک میں پرفارم کر چکا ہے، جن میں دبئی کا جشنِ ریختہ بھی شامل ہے، جہاں 5 ہزار افراد نے ان کی قوالی سنی۔ مگر ایمی کے مطابق، سب سے خوبصورت محفلیں وہ ہوتی ہیں جو چھوٹی اور قریبی ہوں، جہاں سامعین کی آنکھوں میں براہِ راست جذبات کا عکس نظر آ سکے۔
آخری بات — عشق، لگن اور سچائی:
قوالی صرف ایک فن نہیں، یہ ایک روحانی تجربہ ہے اور الٰہی قوال گروہ اس تجربے کو بغیر کسی دعوے کے اپنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ قوالی کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے سیکھ رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں اور اپنی آواز سے دنیا کو ایک نئے زاویے سے روشناس کرا رہے ہیں۔
ان کا یہ پیغام ہے: ’’ہم عظیم قوال نہیں، لیکن ہم اس عظیم روایت سے جُڑنے کی سچی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘