ٹرمپ کی ملک بدری مہم: لاس اینجلس میں شدید احتجاج، فوج اور نیشنل گارڈ تعینات

لاس اینجلس میں اس وقت کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی جب امیگریشن حکام کی جانب سے چھاپہ مار کارروائیوں میں تیزی آ گئی جس کے بعد شہریوں نے شدید احتجاج شروع کر دیا۔ ان مظاہروں نے پُرتشدد شکل اختیار کر لی ہے جس کے جواب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 700 امریکی میرینز اور 4,000 نیشنل گارڈ فوجی لاس اینجلس بھیجنے کا حکم دے دیا۔

یہ سب کچھ ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ ملک بدری کی پالیسی پر عمل درآمد کے لیے گرفتاریوں میں تیزی لا ئی گئی ہے۔ رپورٹس کے مطابق 4 جون کو امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) نے 2,200 افراد کو گرفتار کیا، جو کہ ایک دن میں سب سے زیادہ گرفتاریاں ہیں۔ ان میں سے کئی افراد ایسے تھے جو “Alternative to Detention” پروگرام کے تحت نگرانی میں تھے اور فوری طور پر خطرہ نہیں سمجھے جاتے تھے۔

کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزم  Gavin Newsom، جو کہ صدر ٹرمپ کے سخت ناقد ہیں، نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی تعیناتی “ایک آمرانہ صدر کا خبطی خواب” ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف اسٹیفن ملرStephen Miller، جو اس ملک بدری پالیسی کے مرکزی معمار سمجھے جاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ حکومت روزانہ کی گرفتاریوں کی تعداد 3,000 تک بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ فی الحال یہ تعداد تقریباً 660 یومیہ ہے۔

صدر ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کے دوران ملک بدری کی کارروائیاں سابق صدر جو بائیڈن کے آخری سال کے مقابلے میں یا تو برابر تھیں یا اس سے بھی کم۔ تاہم، انتظامیہ اب اس عمل کو تیز کرنا چاہتی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے 2020 کے اوائل میں ملک بدری سے متعلق روزانہ کے اعداد و شمار جاری کرنا بند کر دیے تھے۔

بارڈر پالیسی کے انچارج ٹام ہومین Tom Homanکا کہنا ہے کہ وہ موجودہ کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا: “ہمیں گرفتاریاں بڑھانی ہوں گی۔”

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 2025-26 : آئندہ بجٹ میں پرانی گاڑیوں پر ٹیکس نرمی کا امکان

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تمام کارروائیاں ایک ایسے شہر میں ہو رہی ہیں جو تارکینِ وطن کی بڑی آبادی پر مشتمل ہے اور جہاں سیاسی طور پر زیادہ تر ڈیموکریٹس کی حمایت موجود ہے۔ اسی وجہ سے یہ مقام ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک علامتی محاذ بن گیا ہے۔

Scroll to Top