پاکستان کا عالمی سفارتی مشن: اقوام متحدہ سے برطانیہ تک اہم ملاقاتیں

لندن: پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں پاکستان نے عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اہم تنازعات کے حل اور خطے میں پائیدار امن و استحکام کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ اتوار کے روز لندن پہنچنے والے ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد نے اسلام آباد کا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لے۔

رواں ماہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے تناظر میں عالمی سطح پر اپنی مؤقف پیش کرنے اور نئی دہلی کے “بے بنیاد الزامات” کا جواب دینے کے لیے ایک وسیع سفارتی مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس مہم کے تحت وفد نے امریکہ کا دورہ مکمل کیا، اب لندن میں موجود ہے اور جلد برسلز بھی جائے گا۔

وفد میں سابق وزرائے خارجہ بلاول بھٹو زرداری، حنا ربانی کھر اور خرم دستگیر کے ساتھ ساتھ سینیٹرز شیری رحمان، مصدق ملک، فیصل سبزواری اور بشریٰ انجم بٹ شامل ہیں۔ سینئر سفارت کار جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ بھی وفد کا حصہ ہیں۔

لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا:”ہمیں حالیہ کشیدگی میں برتری حاصل تھی۔ اس کے باوجود ہم نے جنگ بندی پر اس شرط پر رضامندی ظاہر کی کہ مستقبل میں تمام اختلافی نکات پر کسی غیر جانب دار مقام پر بات چیت ہوگی۔”

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ کی ثالثی کے بعد کشمیر کا مسئلہ جلد حل ہو جائے گا، تو بلاول نے امید ظاہر کی:”آگے چل کر، ٹرمپ یا ان کی حکومت اپنا وعدہ پورا کرے گی، کیونکہ حالیہ کشیدگی میں پاکستان کی دفاعی پوزیشن بھارت سے بہتر تھی۔”انہوں نے مزید کہا:”ہم امید رکھتے ہیں کہ امریکہ ہو یا برطانیہ، عالمی طاقتیں بھارت کو مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل پر آمادہ کریں گی۔”

سابق وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے چھ بھارتی طیارے مار گرائے، جو وہی طیارے تھے جو بمباری کر کے شہری ہلاکتوں کا باعث بنے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس تنازعے میں ایک “معقول اور ذمے دار ریاست” کے طور پر کردار ادا کیا۔

پاکستانی وفد نے لندن میں تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس میں برطانوی پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم، اور تجزیہ کاروں سے بھی ملاقات کی۔ پاکستان ہائی کمیشن لندن کے مطابق، بند کمرہ اجلاس میں وفد نے بھارت کی بلا اشتعال فوجی جارحیت پر شدید تشویش ظاہر کی، جس کے نتیجے میں شہری ہلاکتیں ہوئیں اور خطے کے استحکام کو خطرہ لاحق ہوا۔بیان کے مطابق، وفد نے زور دیا کہ بھارت کے اقدامات پاکستان کی خودمختاری، بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہیں۔

مسئلہ کشمیر کو جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے وفد نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بامقصد مذاکرات کی حمایت کرے اور بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کو یقینی بنائے۔

بلاول بھٹو نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے (Indus Waters Treaty) کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا:”پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بین الاقوامی اصولوں کے منافی اور ایک خطرناک مثال ہے۔”انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس اقدام کا نوٹس لے اور بھارت کو اس کے اقدامات پر جوابدہ ٹھہرائے۔

وفد نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے پرعزم ہے اور بھارت کے کسی بھی نئے “نارمل” کو تسلیم نہیں کرے گا۔

پاکستان کے ہائی کمشنر برائے برطانیہ، ڈاکٹر محمد فیصل بھی اس گول میز اجلاس میں موجود تھے۔

مزید برآں، پاکستانی وفد نے برطانیہ کے وزیر برائے مشرق وسطیٰ، حمیش فالکنر اور ان کی ٹیم سے فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (FCDO) میں ملاقات کی۔ ڈاکٹر فیصل کے مطابق، بلاول بھٹو نے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ہونے والی ایک گفتگو میں بھی شرکت کی، جس میں جنوبی و وسطی ایشیا کے لیے ادارے کے فیلو ڈیسمنڈ باؤن بھی شریک تھے۔

وفد برطانوی پارلیمنٹ کی اعلیٰ قیادت، اور آل پارٹیز پارلیمانی گروپس برائے پاکستان و کشمیر سے بھی ملاقاتیں کرے گا۔

سفارتی محاذ پر سرگرمیاں:

چار جون کو بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد نے نیویارک میں دو روزہ دورہ مکمل کیا، جہاں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور سلامتی کونسل کے منتخب و مستقل ارکان سے ملاقاتیں ہوئیں۔اس کے بعد وفد نے واشنگٹن میں امریکی کانگریس کے ارکان، بشمول ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کے چیئرمین، اور مختلف تھنک ٹینکس سے بھی ملاقاتیں کیں۔

اسی دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی، سید طارق فاطمی کی قیادت میں ایک اور پاکستانی وفد نے دو سے چار جون تک ماسکو کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور صدر پیوٹن کے سینئر مشیر سے ملاقات کی۔

دوسری جانب، بھارت نے بھی سات جماعتی وفود کے عالمی دوروں کا اعلان کیا، جو مختلف ممالک اور اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے ارکان سے ملاقات کر کے دہشت گردی سے متعلق بھارت کا مؤقف اور قومی اتفاق رائے پیش کریں گے۔پانچ جون کو بھارتی وفد نے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے ملاقات کی، جو بھارت سے قریبی روابط رکھتے ہیں۔

پاکستانی اور بھارتی دونوں وفود نے کیپیٹل ہل میں سرگرم سفارت کاری کی، جہاں انہوں نے کانگریس اور سینیٹ کے اہم ارکان سے ملاقاتیں کیں۔
بھارتی وفد نے سینیٹ کی خارجہ اور انٹیلیجنس کمیٹیوں کے ارکان ، ڈیو مکورمک، جیکی روزن، جم رِش، مارک وارنر، جان کارنن، اور ایلیسا سلوتکن  سے ملاقات کی۔

یہ بھی پڑھیں: کیا بچوں کے خراب رویے کی جڑ اسمارٹ فونز ہیں؟ نئی تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

اس وفد کی قیادت کانگریس رکن ششی تھرور کر رہے تھے، جب کہ دیگر ارکان میں شنبھوی چودھری (لوک جن شکتی پارٹی)، سرفراز احمد (جھارکھنڈ مکتی مورچہ)، جی ایم ہریش بلایوگی (تلگو دیشم پارٹی)، ششاک مانے تریپاتھی، تیجسوی سوریہ، بھوبنیشور کلیتا (بی جے پی)، ملیند دیورا (شیو سینا)، اور امریکہ میں سابق بھارتی سفیر ترنجیت سنگھ سندھو شامل تھے۔

Scroll to Top