آج کی دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ پرانی صف بندیاں ٹوٹ رہی ہیں اور نئی طاقتیں عالمی منظرنامے پر ابھر رہی ہیں۔ اس تغیر پذیر ماحول میں پاکستان ایک نئی اور مؤثر سفارتی قوت کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
پہلگام فالس فلیگ کے بعد بھارت کی بلاجواز جارحیت، پاکستان کے صبر و تحمل اور ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر فیصلے اور پھر اپنے دفاع میں بھارتی جارجیت کے جواب نے بین الاقوامی دنیا میں پاکستان کو ایک نمایاں مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔
دوسری جانب بھارت جس کے بارے میں اب یہ بات شواہد کے ساتھ ثابت ہو چکی ہے کہ وہ پاکستان سمیت دیگر ممالک جن میں امریکا، کینیڈا وغیرہ شامل ہیں میں سپانسرڈ دہشتگردی کر رہا ہے کو بین الاقوامی سطح پر سبکی کا سامنا ہے۔ بھارت نے بین الاقوامی سطح پر بلند و بانگ مگر بے وزن خارجہ پالیسی کو صرف نمائشی بیانات تک رکھا جبکہ پاکستان نے حکمت عملی، تدبر اور عملی سفارت کاری کے ذریعے عالمی بر ادری کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں :پہلگام واقعہ کی آڑ میں مودی نے بے حسی کی انتہا کردی ،جڑواں بچوں کو ماں سے جدا کردیا
اقوام متحدہ میں پاکستان کی عالمی تقرریاں صرف نمائشی مناصب نہیں ہیں بلکہ یہ عالمی برادری کا پاکستان کا اعتماد ظاہر کرتی ہیں، بھارت کی تمام کوششوں، حربوں اور منفی پروپیگنڈوں کے باوجود پاکستان کو خطے بالخصوص افغانستان کے حوالے سے اہم ذمہ داریاں دیئے جانا اس بات کی غماری کرتاہے کہ بین الاقوامی دنیا پاکستان کے امن بالخصوص دہشتگردی کیخلاف کردار کو مان چکی ہے۔
اقوامِ متحدہ نے پاکستان کو طالبان پابندیوں کی کمیٹی کی قیادت، انسداد دہشت گردی کمیٹی میں وائس چیئرمین کا عہدہ، اور دو اہم غیر رسمی ورکنگ گروپس (پابندیاں اور بین الاقوامی دستاویزات) کی مشترکہ قیادت سونپی ہے یہ عہدے نہ صرف پاکستان کی متحرک سفارتی کارکردگی کا مظہر ہیں بلکہ اس کے عالمی اثرورسوخ کا ثبوت بھی ہیں۔
اس دوران بھارت مسلسل الزام تراشی اور منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہے، خاص طور پر پے در پے حملوں اور داخلی تنازعات کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی ناکام کوششیں کرتا رہا ہے۔ تاہم پاکستان نے جذباتی جوابات دینے کی بجائے عالمی برادری کو دلائل، شواہد اور سنجیدہ سفارت کاری سے قائل کیا ہے۔ چین، ترکی اور آذربائیجان جیسے اہم اتحادیوں کی کھلی حمایت اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان کا مؤقف بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔
سفارتی میدان کے ساتھ ساتھ پاکستان کو معاشی محاذ پر بھی نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں کا مظہر ہے۔ محض ایک ماہ کے دوران آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر، ایشیائی ترقیاتی بینک سے 800 ملین ڈالر، اور ورلڈ بینک سے 40 ارب ڈالر کے ممکنہ پیکیج کی بات چیت اس بات کا اشارہ ہے کہ اسلام آباد اب صرف مالی امداد کا طلبگار نہیں، بلکہ ایک قابلِ اعتماد شراکت دار کے طور پر ابھر رہا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں :اب پاکستان اور بھارت کی جنگ ہوئی تو ٹرمپ کے پاس مداخلت کرکے رکوانےکا وقت نہیں ہوگا،بلاول
اس کے برعکس، بھارتی وزیرِ اعظم مودی کے حالیہ دورے زیادہ تر نعرے بازی، شو بازی اور اوورسیز انڈین ریلیوں پر مشتمل تھے جن میں سنجیدہ سفارتی پیش رفت یا دو طرفہ کامیابیاں نظر نہیں آئیں۔ جی سیون اجلاسوں میں بھارت کی غیر موجودگی نے ثابت کر دیا کہ عالمی برادری اب صرف آبادی یا شور شرابے پر نہیں بلکہ بصیرت، کارکردگی اور استحکام پر یقین رکھتی ہے۔
یہ سب کچھ صرف پاکستان کی وقتی جیت نہیں بلکہ ایک گہری سوچ کی کامیابی ہے۔ آج کی دنیا صرف بیانات سے نہیں، ٹھوس عمل اور نتیجہ خیز سفارت کاری سے متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان نے یہ ثابت کیا ہے کہ قیادت نعروں سے نہیں، حکمتِ عملی اور ریاستی بصیرت سے قائم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی منظرنامے پر پاکستان اب ایک خاموش مگر مؤثر طاقت کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے بیانیے پر فخر کریں۔ ہمیں دنیا کو بتانا ہوگا کہ پاکستان تنہا میں نہیں، بلکہ عالمی فیصلوں کے مرکز میں ہے۔ پاکستان بحران کا حصہ نہیں، بلکہ اس کا حل ہے۔ پاکستان تماشہ نہیں، بلکہ تدبر، استحکام اور حکمت کی علامت ہے۔