وادی لیپہ اپنی دلکش وادیوں، ثقافتی رنگینیوں اور زبانوں کے تنوع کے باعث منفرد شناخت رکھتی ہے مگر بدقسمتی سے یہاں کی ماں بولی “پہاڑی” حکومتی بے حسی کا شکار ہے۔ ایسے میں اشفاق ماگرے جیسے باصلاحیت باکمال شاعر اپنے کلام کے ذریعے پہاڑی زبان کی مٹھاس اور احساسات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
اشفاق ماگرے کا تعلق اسی دلکش وادی لیپہ سے ہے جہاں کے لوگ اپنی تہذیب اور زبان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ ماگرے نے اب تک درجنوں پہاڑی غزلیں، نظمیں اور کلام تحریر کیے جن میں محبت، فطرت، جدائی اور سماجی مسائل کو نہایت دلنشین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ان کا کلام نہ صرف لیپہ بلکہ گرد و نواح کے علاقوں میں بھی بے حد مقبول ہے۔
اشفاق ماگرے نہ صرف ایک بہترین شاعر ہیں بلکہ پہاڑی زبان پر گہری دسترس بھی رکھتے ہیں۔ تاہم یہ امر افسوسناک ہے کہ اس قدر باصلاحیت شاعر مناسب پلیٹ فارم اور حکومتی سرپرستی سے محروم ہیں۔ ماہرینِ زبان و ادب کے مطابق، حکومت اور ثقافتی اداروں کی مجرمانہ خاموشی نے پہاڑی زبان کو زوال کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
ادبی حلقوں کا کہنا ہے کہ پہاڑی زبان کو فروغ دینے کے لیے فوری اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ اشفاق ماگرے جیسے گوہر نایاب فنکار قومی سطح پر اپنی پہچان بنا سکیں۔ اگر یہ غفلت جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب پہاڑی زبان صرف کتابوں اور یادوں میں رہ جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: حج 2025: سعودی عرب نے فیصلہ برقراررکھتے ہوئےبچوں کا داخلہ ممنوع رکھا ہے
ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے حکومتِ وقت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ پہاڑی زبان و ادب کی ترویج کے لیے منصوبہ بندی کریں، فنکاروں کی مالی و اخلاقی حوصلہ افزائی کی جائے اور قومی پلیٹ فارم مہیا کیے جائیں تاکہ اس قیمتی زبان کو نئی نسل تک منتقل کیا جا سکے۔