آزاد کشمیر:ترقیاتی بجٹ کا 39فیصد خرچ نہ کیا جاسکا،پیداواری شعبہ نظر انداز،غیرمعمولی اخراجات پر سوالات اٹھ گئے

مظفرآباد(ذوالفقار علی،کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم)آزاد کشمیر میں وزیرِاعظم چوہدری انوارالحق کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت رواں مالی سال کے ابتدائی دس ماہ کے دوران ترقیاتی بجٹ کا صرف اکسٹھ فیصد استعمال کر سکی ہے، جبکہ اُنتالیس فیصد رقم اب بھی خرچ ہونا باقی ہے، حالانکہ مالی سال کے صرف دو ماہ باقی رہ گئے ہیں۔

پاکستان کی حکومت نے رواں مالی سال میں آزاد کشمیر کو اٹھائیس ارب روپے فراہم کیے، جن کی آخری قسط اپریل میں جاری کی گئی۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق، اپریل کے اختتام تک صرف سترہ ارب روپے خرچ کیے جا سکے، یعنی ماہانہ اوسط خرچ ایک ارب ستر کروڑ روپے بنتا ہے۔ اس رفتار سے چلتے ہوئے حکومت کو مئی اور جون کے دوران بقیہ گیارہ ارب روپے خرچ کرنے ہوں گے، جو ایک مشکل ہدف دکھائی دیتا ہے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں۔ گزشتہ مالی سال میں بھی آزاد کشمیر کو وفاق کی جانب سے ساڑھے پچیس ارب روپے فراہم کیے گئے تھے، جن میں سے پہلے گیارہ ماہ میں صرف چودہ ارب روپے خرچ کیے گئے، جبکہ ساڑھے گیارہ ارب روپے جون میں عجلت میں خرچ کیے گئے، جو بجٹ کے غیر منصوبہ بند استعمال کی نشاندہی کرتا ہے۔

رواں سال بھی ترقیاتی بجٹ کا سب سے بڑا حصہ سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کیا گیا ہے۔ پہلے دس ماہ میں اس مد میں بارہ ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں، جبکہ پورے سال کے لیے اس مد کا بجٹ پندرہ ارب روپے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ مالی سال میں بھی اتنی ہی رقم یعنی پندرہ ارب روپے صرف سڑکوں پر خرچ کی گئی تھی۔

کئی ماہرین اور تجزیہ کار اس رجحان پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کے مطابق سڑکوں کی تعمیر اگرچہ ضروری ہے، لیکن یہ غیر پیداواری شعبہ ہے، اور آزاد کشمیر جیسے خطے میں اس پر اتنی بڑی رقم خرچ کرنا معاشی طور پر دانشمندانہ نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کسی بڑی پیداوار کو منڈی تک پہنچانے کی فوری ضرورت نہیں ہوتی، اس لیے سڑکوں کی تعمیر وقتی طور پر موخر کی جا سکتی ہے۔

ماہرین کا مؤقف ہے کہ حکومت کو اپنے ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ پیداواری شعبوں جیسے زراعت، چھوٹے کاروبار، انڈسٹری، لائیواسٹاک، سیاحت، پن بجلی، ماحولیات اور ہنر مندی کی تربیت پر خرچ کرنا چاہیے۔ یہ وہ شعبے ہیں جو نہ صرف مقامی معیشت کو مضبوط بنا سکتے ہیں بلکہ آمدنی میں اضافہ اور روزگار کے مواقع بھی پیدا کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق آزاد کشمیر میں بے روزگاری کی شرح چودہ فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ اگر آمدنی پیدا کرنے والے منصوبوں کو ترجیح نہ دی گئی تو یہ مسئلہ مستقبل میں مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں اکثر ترقیاتی منصوبے سیاسی بنیادوں پر بنائے جاتے ہیں، جو حقیقی ضروریات کے مطابق نہیں ہوتے۔ اس کے نتیجے میں وہ علاقے اور شعبے نظر انداز ہو جاتے ہیں جہاں زیادہ پیداواری صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ، خطے میں استعداد، مہارت، اور قابلیت کی کمی کے ساتھ ساتھ کرپشن بھی ایک سنگین مسئلہ ہے، جو ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق گزشتہ دو برسوں کے دوران صورتحال اس لیے مزید بگڑی ہے کہ وزیراعظم اور وزراء خود منصوبے تجویز کرتے ہیں اور ان کے لیے فنڈز مختص کرتے ہیں۔

اس عمل میں پک اینڈ چوز کا رجحان غالب ہے، یعنی منصوبے شفاف معیار کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذاتی یا سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے منتخب کیے جاتے ہیں۔ اس کی بڑی مثال وزیراعظم کا تعمیر نو کشمیر پروگرام ہے جس کے تحت آزاد کشمیر کے ہر منتخب رکن اسمبلی کو لنک روڈز کے لیے 50، 50 کروڑ روپے فراہم کیے جارہے ہیں اور لوکل گورنمنٹ کی منصوبوں میں اراکین اسمبلی کا کردار ۔ ۔
صدر مملکت اور وزیراعظم نے جنرل سید عاصم منیر کو ’’بیٹن آف فیلڈ مارشل‘‘ کے اعزاز سے نواز دیا

Scroll to Top