بھارت کی پاکستان کے ہاتھوں پٹائی کے بعد دہلی کی سفارتکاری پر سوالات اٹھنے لگے

لندن (کشمیر ڈیجیٹل)مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشن کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ۔ پاکستان نے بھارتی حکومت سے پہگام واقعہ کی تحقیقات کیلئے تعاون کی پیشکش بھی کی مگر بھارت کی ہٹ دھرمی نے اسے لاعلاج مرض تک پہنچادیا جس کے بعد پاکستان نے بھرپور جوابی کارروائی میں بھارت کے دانت کھٹے کردیئے ۔

یاد رہے کہ سات مئی کی صبح کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی اس کی وجہ چھ مئی کی رات کو انڈیا کی پاکستان کے اندر فوجی کارروائی تھی جس کی خبر صبح ہوتے ہی جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کی اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر اگلے چار روز تک حملے کرتے رہے۔ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ تھا کہ دنیا کے دیگر طاقتور ممالک اس کشیدگی پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

چین نے کھل کر کہا کہ وہ پاکستان کی خود مختاری کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ ترکی نے بھی پاکستان کا ساتھ دیا۔یہ بات بھی اہم ہے کہ چین نے پاکستان کی خودمختاری کے بارے میں جو کچھ کہا، ایسا کسی اور ملک نے انڈیا کے لیے نہیں کہا۔

انڈیا کی خارجہ پالیسی پر اس وقت مزید سوالات اٹھنے لگے جب تیسرے ملک امریکہ کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور وہ بھی مکمل طور پر ایک حکم نامے کی طرح۔

اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کو جنگ بندی کا پہلے سے علم تھا اور یہ امریکہ ہی تھا جس نے انڈیا کے عوام کو اس کے متعلق آگاہ کیا، نہ کے ان کی اپنی حکومت نے۔

دوسری جانب ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں دہشت گردی کا ذکر تک نہیں کیا۔ ٹرمپ نے انڈیا اور پاکستان کو برابری پر کھڑا کردیا۔

انڈیا مسئلہ کشمیر پر کسی کی ثالثی قبول نہیں کرتا لیکن امریکہ نے واضح طور پر کہا کہ اس نے جنگ بندی کی ہے اور پاکستان نے بھی اسے قبول کیا ہے۔ تاہم انڈیا نے اپنے ردعمل میں اسے دو طرفہ قرار دیا اور امریکہ کا نام تک نہیں لیا۔

انڈیا بھی اپنا کسی طرح کا موازنہ پاکستان سے نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن اس سارے معاملے میں ایسا ہی ہوا۔ سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور پہلے انڈیا آئے اور پھر پاکستان گئے۔ ایران کے وزیر خارجہ بھی پہلے پاکستان گئے اور پھر انڈیا پہنچے۔

اسی طرح امریکہ نے بھی انڈیا اور پاکستان کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا خود کو پاکستان سے ‘ڈی ہائفینیٹ’ یا علیحدہ کرنے کی کوشش میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں کیا مودی سرکار کی سفارت کاری یا خارجہ پالیسی کامیاب تھی؟

انڈیا کے معروف انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کی سفارتی امور کی ایڈیٹر سوہاسینی حیدر نے سابق مرکزی وزیر کپل سبل کے ایک شو میں کہا کہ ’تمام عالمی رہنما جنھوں نے انڈیا اور پاکستان سے بات کی، ان کی پوری توجہ کشیدگی کو کم کرنے پر تھی نہ کہ دہشت گردی پر۔ انڈیا چاہتا ہے کہ اس کا موازنہ پاکستان سے نہ کیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ امریکہ کی پاکستان کی انڈیا کے ساتھ تجارت کا حجم 140 ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ صرف 10 ارب ڈالر۔ لیکن ٹرمپ نے دونوں کو ایک ہی پیمانے پر رکھا ہے۔‘

پاکستان مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر لانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ انڈیا اسے ہر قیمت پر روکنا چاہتا ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار پاکستان مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر لانے میں کامیاب ہوا ہے۔

پاکستان مسئلہ کشمیر پر تیسرے فریق کی ثالثی یا اقوام متحدہ کی مداخلت کی وکالت کرتا رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر زیر بحث لانا پاکستان کے مفاد میں ہے۔
معرکہ حق: پاک فوج کی بڑی کامیابی،آرمی چیف جنرل عاصم منیر ’’قومی نجات دہندہ‘‘ کے طور پر ابھرے، نیویارک ٹائمز

Scroll to Top