اسلام آباد (ذوالفقار علی ،کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم )جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کونسل یو کے (جے کے ایچ آر یو کے) کے سربراہ ڈاکٹر نذیر گیلانی نے آزاد جموں و کشمیر کی اسمبلی کی جانب سے ہائی کورٹ کے فیصلے کے برعکس منظور کیے گئے اس قانون پر سوالات اٹھائے ہیں، جس کے تحت اراکین اسمبلی کو لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی کے منصوبوں کی نشاندہی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ نذیر گیلانی نے کہا “عدالتِ عالیہ کا فیصلہ ایک حتمی اور لازمی ہدایت ہے۔ حکومت کی جانب سے اسمبلی کے ذریعے اس فیصلے کو نظرانداز کر کے ایک متضاد قانون بنانا دراصل عدالت کی بالادستی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
واضح رہے کہ 30 اپریل کو آزاد کشمیر اسمبلی نے متنازع قانون “دستورالعمل برائے ترقیاتی پروگرام، لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی آرڈیننس 2025” منظور کیا۔ اس کے دفعہ 8 کی ذیلی شق (1) کے تحت منصوبوں کی نشاندہی ممبرانِ قانون ساز اسمبلی (سالانہ ترقیاتی پروگرام میں ممبران قانون ساز اسمبلی کے لیے ترقیاتی فنڈز کے خلاف)، ذیلی شق (2) کے تحت منتخب ممبرانِ لوکل کونسل (لوکل کونسل فنڈ یا حکومت کی جانب سے لوکل کونسلرز کو مہیا کردہ گرانٹ کے خلاف) اور ذیلی شق (3) کے تحت مقامی آبادی، دیہی تنظیمات اور معززین علاقہ کر سکیں گے۔ اس قانون کے تحت اراکین اسمبلی کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں فنڈز مختص ہوں گے، جبکہ لوکل کونسلرز کو حکومت اپنی صوابدید کے مطابق لوکل کونسل فنڈز یا گرانٹ فراہم کرے گی۔
اس قانون کی منظوری کے بعد آزاد کشمیر لوکل گورنمنٹ کی طرف سے جاری ایک نوٹیفکیشن کے مطابق، آزاد کشمیر کے محکمہ لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی کے سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ ایک ارب انسٹھ کروڑ تین لاکھ دس ہزار روپے لوکل کونسلرز کو جاری کیے گئے، جبکہ انہتر لاکھ روپے پانچ میونسپل کارپوریشنز کو فراہم کیے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مالی سال 2024-2025 کے لیے بچے ہوئے تین ارب ستر کروڑ روپے کے لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی کے ترقیاتی فنڈز میں سے دو ارب ساٹھ کروڑ روپے اراکین اسمبلی کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے، جبکہ تین ہزار کونسلرز اور بلدیاتی اداروں کو صرف ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے کی گرانٹ فراہم کی گئی۔
یہ خبر بھی پڑھیں ۔عدالتی فیصلے کے برعکس نیا قانون: ارکان اسمبلی کیلئے زیادہ فنڈز، بلدیاتی ادارے منہ دیکھتے رہ گئے
تاہم 29 فروری 2025 کو آزاد کشمیر کی عدالتِ عالیہ نے ایک اہم فیصلہ سنایا تھا، جس میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ 1990 کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت ترقیاتی رقوم صرف اور صرف منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ کی جائیں گی۔ عدالت نے اس دستورالعمل دستاویز کو بھی غیر قانونی قرار دیا تھا، جس کے تحت اراکین اسمبلی دہائیوں سے لوکل گورنمنٹ کے فنڈز خرچ کرتے آ رہے تھے اور اب یہی دستورالعمل قانون بن گیا ہے۔
جے کے ایچ آر – یو کے کے سربراہ نذیر گیلانی نے کہا” عدالت کا یہ فیصلہ قانون کی روح، عوامی نمائندگی اور شفافیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔ ایسی کوئی بھی انتظامی یا قانون ساز کارروائی، جو بغیر کسی جائز وجہ کے عدالت کے فیصلے کو غیر مؤثر بنانے کی کوشش کرے، وہ انصاف اور قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے۔”
ان کا کہنا ہے کہ اسمبلی کی جانب سے بنایا گیا یہ نیا قانون 1990 کے لوکل گورنمنٹ کے قانون کے بنیادی مقصد کو پامال کرتا ہے، جس کا اصل منشأ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی، عوام کی شمولیت، اور بہتر خدمات کی فراہمی تھا۔ بلدیاتی نمائندے حکومت کی وہ سطح ہیں جو براہِ راست عوام سے جُڑی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے اس فیصلے کے نتیجے میں احتساب، عوام کی شراکت پر مبنی جمہوریت اور حقیقی ضرورتوں کے مطابق منصوبہ بندی شدید متاثر ہوں گے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ یہ اختیارات کے غلط استعمال کو فروغ دے گا۔
جے کے ایچ آر – یو کے کے سربراہ کے مطابق یہ عدالت کے فیصلے کے برعکس قانون سازی کا عمل نہ صرف عدالت کے فیصلے کو پسِ پشت ڈالنے کی کوشش ہے بلکہ اس میں عدالت کی توہین کا پہلو بھی پایا جاتا ہے، اور یہ آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی ہے کہ حکومت عدالت کے فیصلے کا احترام کرے۔
نذیرگیلانی نے کہا “بلدیاتی نمائندے اور اسمبلی کے ارکان، دونوں ہی عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان امتیاز قائم کرنا ووٹ کی برابری کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے عوام کا اعتماد مقامی اداروں سے اٹھ جائے گا۔” انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مقامی حکومتوں کو اپنے عوامی امور کی نگرانی کا باقاعدہ اختیار ہونا چاہیے، اور یہ کہ اقوامِ متحدہ، دولتِ مشترکہ اور یورپی ممالک کی ہدایات میں یہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ مقامی اداروں کو اپنے ذمے عوامی معاملات کا ایک مؤثر حصہ سنبھالنے کا اختیار دیا جانا چاہیے۔
نذیر گیلانی نے کہا کہ آزاد کشمیر کی اسمبلی کی طرف سے منظور کیا گیا نیا قانون نہ صرف عدالتِ عالیہ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ 1990 کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کو غیر مؤثر بناتا ہے اور جمہوری اصولوں اور مقامی خودمختاری کے تصور کو مجروح کرتا ہے۔ انہوں نے کہا” بلدیاتی نمائندے عوام کے ساتھ براہِ راست جُڑے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس مقامی ضروریات کی حقیقی معلومات ہوتی ہیں۔ ان کو ترقیاتی عمل سے دور رکھنا ایک ایسی منصوبہ بندی کو جنم دے گا جس میں عوامی آواز شامل نہیں ہوگی۔ یہ جمہوریت کی بنیاد کو کھوکھلا کرے گا۔” انہوں نے کہا کہ ہر کام قانون کے مطابق ہونا چاہیے، اور حکومت اور عوام دونوں پر لازم ہے کہ وہ قانون کے تابع رہیں۔
کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم )جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کونسل – یو کے (جے کے ایچ آر – یو کے) کے سربراہ ڈاکٹر نذیر گیلانی نے آزاد جموں و کشمیر کی اسمبلی کی جانب سے ہائی کورٹ کے فیصلے کے برعکس منظور کیے گئے اس قانون پر سوالات اٹھائے ہیں، جس کے تحت اراکین اسمبلی کو لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی کے منصوبوں کی نشاندہی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
نذیر گیلانی نے کہا کہ عدالتِ عالیہ کا فیصلہ ایک حتمی اور لازمی ہدایت ہے،حکومت کی جانب سے اسمبلی کے ذریعے اس فیصلے کو نظرانداز کر کے ایک متضاد قانون بنانا دراصل عدالت کی بالادستی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
واضح رہے کہ 30 اپریل کو آزاد کشمیر اسمبلی نے متنازع قانون “دستورالعمل برائے ترقیاتی پروگرام، لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی آرڈیننس 2025” منظور کیا۔ اس کے دفعہ 8 کی ذیلی شق (1) کے تحت منصوبوں کی نشاندہی ممبرانِ قانون ساز اسمبلی (سالانہ ترقیاتی پروگرام میں ممبران قانون ساز اسمبلی کے لیے ترقیاتی فنڈز کے خلاف)، ذیلی شق (2) کے تحت منتخب ممبرانِ لوکل کونسل (لوکل کونسل فنڈ یا حکومت کی جانب سے لوکل کونسلرز کو مہیا کردہ گرانٹ کے خلاف) اور ذیلی شق (3) کے تحت مقامی آبادی، دیہی تنظیمات اور معززین علاقہ کر سکیں گے۔ اس قانون کے تحت اراکین اسمبلی کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں فنڈز مختص ہوں گے، جبکہ لوکل کونسلرز کو حکومت اپنی صوابدید کے مطابق لوکل کونسل فنڈز یا گرانٹ فراہم کرے گی۔
اس قانون کی منظوری کے بعد آزاد کشمیر لوکل گورنمنٹ کی طرف سے جاری ایک نوٹیفکیشن کے مطابق، آزاد کشمیر کے محکمہ لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی کے سیکر ٹریٹ کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ ایک ارب انسٹھ کروڑ تین لاکھ دس ہزار روپے لوکل کونسلرز کو جاری کیے گئے، جبکہ انہتر لاکھ روپے پانچ میونسپل کارپوریشنز کو فراہم کیے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مالی سال 2024-2025 کے لیے بچے ہوئے تین ارب ستر کروڑ روپے کے لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی کے ترقیاتی فنڈز میں سے دو ارب ساٹھ کروڑ روپے اراکین اسمبلی کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے، جبکہ تین ہزار کونسلرز اور بلدیاتی اداروں کو صرف ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے کی گرانٹ فراہم کی گئی۔
تاہم 29 فروری 2025 کو آزاد کشمیر کی عدالتِ عالیہ نے ایک اہم فیصلہ سنایا تھا جس میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ 1990 کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت ترقیاتی رقوم صرف اور صرف منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ کی جائیں گی۔ عدالت نے اس دستورالعمل دستاویز کو بھی غیر قانونی قرار دیا تھا، جس کے تحت اراکین اسمبلی دہائیوں سے لوکل گورنمنٹ کے فنڈز خرچ کرتے آ رہے تھے اور اب یہی دستورالعمل قانون بن گیا ہے۔
جے کے ایچ آر – یو کے کے سربراہ نذیر گیلانی نے کہا کہ عدالت کا یہ فیصلہ قانون کی روح، عوامی نمائندگی اور شفافیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔ ایسی کوئی بھی انتظامی یا قانون ساز کارروائی جو بغیر کسی جائز وجہ کے عدالت کے فیصلے کو غیر مؤثر بنانے کی کوشش کرے وہ انصاف اور قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسمبلی کی جانب سے بنایا گیا یہ نیا قانون 1990 کے لوکل گورنمنٹ کے قانون کے بنیادی مقصد کو پامال کرتا ہے، جس کا اصل منشأ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی، عوام کی شمولیت، اور بہتر خدمات کی فراہمی تھا۔ بلدیاتی نمائندے حکومت کی وہ سطح ہیں جو براہِ راست عوام سے جُڑی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے اس فیصلے کے نتیجے میں احتساب، عوام کی شراکت پر مبنی جمہوریت اور حقیقی ضرورتوں کے مطابق منصوبہ بندی شدید متاثر ہوں گے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ یہ اختیارات کے غلط استعمال کو فروغ دے گا۔
جے کے ایچ آر – یو کے کے سربراہ کے مطابق یہ عدالت کے فیصلے کے برعکس قانون سازی کا عمل نہ صرف عدالت کے فیصلے کو پسِ پشت ڈالنے کی کوشش ہے بلکہ اس میں عدالت کی توہین کا پہلو بھی پایا جاتا ہے اور یہ آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی ہے کہ حکومت عدالت کے فیصلے کا احترام کرے۔
گیلانی نے کہا بلدیاتی نمائندے اور اسمبلی کے ارکان، دونوں ہی عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں،ان کے درمیان امتیاز قائم کرنا ووٹ کی برابری کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے عوام کا اعتماد مقامی اداروں سے اٹھ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مقامی حکومتوں کو اپنے عوامی امور کی نگرانی کا باقاعدہ اختیار ہونا چاہیے، اور یہ کہ اقوامِ متحدہ، دولتِ مشترکہ اور یورپی ممالک کی
ہدایات میں یہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ مقامی اداروں کو اپنے ذمے عوامی معاملات کا ایک مؤثر حصہ سنبھالنے کا اختیار دیا جانا چاہیے۔
نذیر گیلانی نے کہا کہ آزاد کشمیر کی اسمبلی کی طرف سے منظور کیا گیا نیا قانون نہ صرف عدالتِ عالیہ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ 1990 کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کو غیر مؤثر بناتا ہے اور جمہوری اصولوں اور مقامی خودمختاری کے تصور کو مجروح کرتا ہے۔ انہوں نے کہا” بلدیاتی نمائندے عوام کے ساتھ براہِ راست جُڑے ہوتے ہیں۔
ان کے پاس مقامی ضروریات کی حقیقی معلومات ہوتی ہیں۔ ان کو ترقیاتی عمل سے دور رکھنا ایک ایسی منصوبہ بندی کو جنم دے گا جس میں عوامی آواز شامل نہیں ہوگی۔ یہ جمہوریت کی بنیاد کو کھوکھلا کرے گا۔” انہوں نے کہا کہ ہر کام قانون کے مطابق ہونا چاہیے، اور حکومت اور عوام دونوں پر لازم ہے کہ وہ قانون کے تابع رہیں۔