محکمہ صحت کے سینکڑوں ملازمین اس وقت شدید مالی اور ذہنی پریشانی کا شکار ہیں، جن کی نہ صرف تنخواہیں روک دی گئی ہیں بلکہ انھیں نوکری سے بھی فارغ کیا جا رہا۔ تجزیہ کار عبدالمنان سیف اللہ نے اس مسلے کے حل کے لیے بیوروکریسی اور سیاستدانوں کوسب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔
تجزیہ کار عبدالمنان سیف اللہ نے کشمیر ڈیجیٹل کے پروگرام میں اپنا تجزیہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ صحت کے PC-1 میں کہا گیا تھا کہ تمام ملازمین کو شامل کیا گیا ہے، تاہم حقائق سامنے آنے پر معلوم ہوا کہ 237 ملازمین کو اس منصوبے میں شامل ہی نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے یہ سنگین مسئلہ پیدا ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کے اکاؤنٹس میں تقریباً 8 کروڑ روپے موجود ہیں، مگر اس کے باوجود ان ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی جا رہیں۔ ان ملازمین کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں اور یہ لوگ سڑکوں پر دھرنے دینے پر مجبور ہو گئے ہیں یہ لوگ مسلسل سراپا احتجاج ہیں مظفرآباد سینٹرل پریس کلب کے باہر اور حکومتی وزراء سے بھی ملاقاتیں ہو چکی ہیں لیکن ابھی تک کوئی مثبت پیشرفت نہیں ہوئی۔ اس تمام صورتحال میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ان فنڈز کو استعمال کون کر رہا ہے؟
تجزیہ کار کا مزید کہنا تھا کہ جن ملازمین کو اب فارغ کیا جا رہاہے، انہوں نے اپنی زندگی کے 17 ، 18 قیمتی سال محکمہ صحت کو دیے، لیکن اب انہیں فارغ کیا جا رہا ہے اب وہ کہاں جائیں گے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر حکومت نے انہیں فارغ ہی کرنا تھا تو ان کی زندگی کے وہ سال کون واپس کرے گا جو انہوں نے ادارے کو دیے؟
یہ بھی پڑھیں: تتا پانی کی بیٹی نے تاریخ رقم کردی: حوریہ ملک پاکستان بلائنڈ ویمن کرکٹ ٹیم میں شامل
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر قانون سازی کرے تاکہ ان ملازمین کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔ کیونکہ صرف یہ ملازمین نہیں بلکہ ان کے اہل خانہ بھی اس ناانصافی کی چکی میں پس رہے ہیں۔