آزاد کشمیر کی دلکش وادی لیپہ میں پایا جانے والا نایاب درخت “پھرونگی” (جسے اردو میں “برمی” بھی کہا جاتا ہے) قدرت کی ایک نایاب نعمت ہے، جس کی اہمیت صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ طبی، معاشی اور ثقافتی لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہے، تاہم یہ قیمتی درخت آج بے دردی سے کٹائی اور شعور کی کمی کے باعث معدومیت کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
“پھرونگی”، جسے مقامی طور پر “برمی” بھی کہا جاتا ہے، ایک سدا بہار درخت ہے جو وادی لیپہ کے گھنے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ اس درخت کی لکڑی مضبوط، دیرپا اور قیمتی ہوتی ہے، جو فرنیچر، آرائش اور طب میں استعمال ہوتی ہے۔ اس کے پتے بستر کے طور پر، چھال چائے کے لیے اور لکڑی ایندھن کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی روایات کے مطابق، اس درخت پر آسمانی بجلی نہیں گرتی، جس کی وجہ سے یہ محفوظ ترین سایہ دار درخت مانا جاتا ہے۔
“پھرونگی” درخت وادی لیپہ کی ثقافت اور تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ مقامی لوگ صدیوں سے اس درخت کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرتے آ رہے ہیں، اور یہ درخت ان کی روزمرہ زندگی میں گہرائی سے رچا بسا ہے۔ اس کی موجودگی وادی کی قدرتی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے اور مقامی ماحولیاتی نظام کے توازن کو برقرار رکھنے میں مددگار ہے۔
بدقسمتی سےشعور کی کمی اور بے دریغ کٹائی کے باعث یہ درخت ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ مقامی افراد کی جانب سے ایندھن اور لکڑی کے حصول کے لیے بے دریغ کٹائی اور نئی نسل میں اس درخت کی اہمیت سے لاعلمی اس کے خاتمے کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے علاوہ، برمی درخت کی لکڑی کی گلنے سڑنے کے خلاف قوت مدافعت کی وجہ سے تعمیرات اور فرنیچر میں اس کا استعمال بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس کی کٹائی میں اضافہ ہوا ہے۔
ماحولیاتی ماہرین اور مقامی سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ اگر فوری اور موثر اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلیں صرف اس درخت کا نام ہی کتابوں میں پڑھ پائیں گی۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر اس نایاب درخت کو تحفظ دینے کے لیے قانون سازی کرے، مقامی آبادی میں آگاہی مہم چلائی جائے اور جنگلات کے تحفظ کے لیے اجتماعی اقدامات کیے جائیں۔ WWF نے ایوبیہ نیشنل پارک کے ارد گرد کے علاقوں میں مقامی افراد کو برمی درخت کی کٹائی سے روکنے کے لیے شعور کی بیداری کی مہم چلائی ہے، جو ایک مثبت قدم ہے۔