ذوالفقار علی (کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم)آزاد کشمیر کے محکمہ صحت کی جانب سے 38 کروڑ روپے سے زائد رقم سے خریدی گئی 24 ٹویوٹا ہائی ایس کمیوٹر ہائی روف ایمبولینسز گزشتہ 20 ماہ سے اسلام آباد میں محکمے کے گودام میں کھڑی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت نے 2023 ماڈل کی ایمبولینسز کی قیمت ادا کی تھی، لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ ٹویوٹا کی گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنی انڈس موٹرز کی واحد مقامی ڈیلر، آزاد موٹرز، نے انہیں 2022 ماڈل کی گاڑیاں فراہم کیں۔ یہ ایمبولینسز کب تک گودام میں کھڑی رہیں گی، اس بارے میں حکام خاموش ہیں۔
البتہ آزاد کشمیر احتساب بیورو نے 2 مارچ 2025 کو انڈس موٹرز اور اس کے مقامی ڈیلر آزاد موٹرز کو مکتوب ارسال کیا جس میں وضاحت طلب کی گئی کہ 2023 ماڈل کی ٹویوٹا ہائی ایس کمیوٹر ہائی روف ایمبولینسز گاڑیوں کی جگہ 2022 ماڈل کی گاڑیاں کیوں فراہم کی گئیں؟
واضح رہے کہ محکمہ صحت اور ٹویوٹا موٹرز کے درمیان ایک 2023 ماڈل ٹویوٹا ہائی ایس ایمبولینس کی قیمت ایک کروڑ 58 لاکھ 49 ہزار روپے طے پائی تھی اور حکومت نے 24 گاڑیوں کی مجموعی قیمت 38 کروڑ 3 لاکھ 76 ہزار روپے آزاد موٹرز کو پیشگی ادا کی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب احتساب بیورو انڈس موٹرز سے جواب طلب کر رہا تھا، عین اسی وقت وزیراعظم آزاد کشمیر مظفرآباد میں آزاد موٹرز سے ہی خریدی گئی موبائل فوڈ ٹیسٹنگ لیبارٹریز کا افتتاح کر رہے تھے — وہی کمپنی جس کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔
احتساب بیورو کے ڈائریکٹر انویسٹی گیشن کے مکتوب میں نشاندہی کی گئی کہ آزاد موٹرز نے اسی ساخت اور ماڈل کی گاڑیاں محکمہ صحت کو فرہام کی گئیں جو پہلے اس نے 20 اپریل 2020 کو آزاد کشمیر کے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کو فراہم کی تھیں۔ لیکن مکتوب کے مطابق محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کو ایک گاڑی 97 لاکھ 9 ہزار روپے میں ملی، جبکہ محکمہ صحت کو وہی گاڑی ایک کروڑ 58 لاکھ 49 ہزار روپے میں فروخت کی گئی — یعنی فی گاڑی 61 لاکھ 40 ہزار روپے کا اضافی بوجھ۔ یوں حکومت کو 14 کروڑ 73 لاکھ 60 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
محض دس دن بعد 13 مارچ کو احتساب بیورو کے ڈائریکٹر انویسٹی گیشن ریٹائر ہو گئے اور تاحال ان کی جگہ کوئی تعینات نہیں ہو سکا۔احتساب بیورو کے ایک اہلکار کے مطابق انڈس موٹرز کی جانب سے چند دن پہلے جواب موصول ہوا ہے۔تاہم انہوں نے تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آزاد موٹرز نے جواب کے لیے مزید وقت مانگا ہے ۔
حکومت نے اگست 2024 میں آزاد موٹرز کے خلاف ریفرنس احتساب بیورو کو ارسال کیا تھا جب ایمبولینسز کو گودام میں کھڑے ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا تھا۔ حیرت انگیز طور پر اس ریفرنس میں کسی بھی سرکاری افسر کو شامل نہیں کیا گیا۔
قانونی ماہرین کے مطابق چونکہ اس وقت احتساب بیورو سربراہ، یعنی چیئرمین، کے بغیر کام کر رہا ہے لہٰذا بیورو بیانات قلمبند کرنے کے سوا کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ احتساب بیورو کا اختیار محدود ہے؛ یہ صرف حکومت کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس یا کسی فرد کی شکایت پر کارروائی کر سکتا ہے اور از خود تحقیقات نہیں کرسکتا ہے ۔ لہٰذا یہ خارج از امکان ہے کہ احتساب بیورو سرکاری حکام سے اس بابت کوئی وضاحت طلب کرے کہ 2023 ماڈل کی ایمبولینسز کی جگہ 2022 ماڈل کی ایمبولینسز کیسے خریدی گئیں کیوں کہ ریفرنس میں کسی افسر کا نام شامل نہیں ہے۔ ۔
محکمہ صحت نے یہ ایمبولینسز اپریل کے آخر یا مئی 2023 کے اوائل میں خریدنے کا عمل شروع کیا تھا۔ آزاد موٹرز نے 8 مئی کو پیشکش دی کہ وہ 2023 ماڈل کی ٹویوٹا ہائی ایس کمیوٹر ہائی روف ایمبولینسز 1 کروڑ 77 لاکھ 49 ہزار روپے فی کس فراہم کرے گا، لیکن بعد میں 19 لاکھ روپے فی گاڑی رعایت دے کر قیمت 1 کروڑ 58 لاکھ 49 ہزار روپے کر دی گئی۔
حکومت نے 24 گاڑیوں کی قیمت پیشگی ادا کی۔ گاڑیوں کی نقل و حمل کے لیے 1 کروڑ 44 لاکھ روپے اور فیبریکیشن و آلات کی تنصیب کے لیے 8 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔
یہ گاڑیاں آزاد موٹرز سے اس لیے خریدی گئیں کہ حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق ٹویوٹا کی گاڑیاں صرف اسی ڈیلر سے خریدی جا سکتی ہیں۔ اس بنا پر کوئی اشتہار جاری نہیں کیا گیا۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ جون 2023 میں خریداری کے بابت محکمہ صحت کی کمیٹی نے میرپور میں ان گاڑیوں کا ابتدائی معائنہ کیاجس کے بعد جولائی 2023 میں انہیں اسلام آباد میں واقع محکمہ صحت کے گودام میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر گاڑیوں کا ماڈل 2023 کے بجائے 2022 ماڈل کی تھیں تو محکمہ صحت نے گاڑیاں اپنے گودام میں منتقل کرنے کی اجازت کیوں دی اور اس پر سوال کیوں نہیں اٹھایا؟
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگست 2023 میں ان گاڑیوں کا محکمہ صحت کے گودام میں حتمی معائنہ ہواجس میں محکمہ صحت، آزاد موٹرز اور انڈس موٹرز کی تکنیکی ٹیمیں موجود تھیں۔ذرائع کی مطابق اس موقع پر یہ واضح ہوا کہ یہ ایمببولیسز 2022 ماڈل کی ہیں۔
ذرائع کے مطابق محکمۂ صحت نے آزاد موٹرز سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ فراہم کی گئی 2022 کی گاڑیاں واپس لے کر ان کی جگہ 2023 ماڈل کی گاڑیاں فراہم کرےجس پر کمپنی نے آمادگی ظاہر کر دی تھی۔
ذرائع کے مطابق نومبر اور دسمبر 2023 میں آزاد موٹرز نے خریداری سے متعلق محکمہ صحت کی کمیٹی کو 2023 ماڈل کی گاڑیوں کا میرپور میں اپنے شوروم میں معائنہ بھی کرایا جس کے بعد محکمہ صحت نے حکومت کو ایک خط لکھا کہ کہ ان کو اجازت دی جائے کہ وہ آزاد موٹرز کو 2022 ماڈل کی گاڑیاں واپس کر کے 2023 ماڈل کی گاڑیاں حاصل کرے۔ تاہم حکومت نے خاموشی اختیار کی اور اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا اور کمپنی کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی محکمۂ صحت کے متعلقہ افسران کو جواب دہ ٹھہرایا۔
حکومت کی ریفرنس پر سوالات؟
اس خط کے آٹھ ماہ بعد اگست 2024 میں، حکومت نے آزاد موٹرز کے خلاف ریفرنس احتساب بیورو کو بھیجا، جس سے یہ تاثر ابھرا کہ حکومت شفاف تحقیقات میں سنجیدہ نہیں۔
عوامی سطح پر یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ جب حکومت کو معلوم تھا کہ یہ ایمبولینسز جولائی 2023 سے گودام میں کھڑی ہیں تو پھر ریفرنس ایک سال سے زائد تاخیر سے کیوں بھیجا گیا؟
اسی طرح یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ ریفرنس میں اس اہم حقیقت کو کیوں نظرانداز کیا گیا کہ ابتدائی معائنے میں خریداری سے متعلق محکمہ صحت کی کمیٹی شامل تھی اور انہی کی اجازت سے یہ ایمبولینسز محکمہ کے گودام میں منتقل کی گئیں؟
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ ریفرنس میں اس نکتے کو شامل کیوں نہیں کیا گیا کہ محکمہ صحت نے حکومت کو باقاعدہ خط لکھ کر اجازت طلب کی تھی کہ وہ 2022 ماڈل کی گاڑیاں واپس کر کے 2023 ماڈل کی گاڑیاں حاصل کرنا چاہتا ہے، مگر حکومت نے نہ اس خط کا کوئی جواب دیا اور نہ ہی کوئی عملی قدم اٹھایا۔
یہ سوال بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ محض کمپنی کے خلاف ریفرنس بھیج کر کیا حکومت خود کو اس معاملے سے بری الذمہ قرار دے سکتی ہے؟
یہ وہ نکات ہیں جن کی بنیاد پر احتساب بیورو کو بھیجے گئے ریفرنس کی سنجیدگی اور نیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اس سے قطع نظر کہ احتساب بیورو کو بھیجے جانے والے اس ریفرنس کی کوئی افادیت ہے یا اس کا کوئی نتیجہ نکلے گا ،حقیقت یہ ہے کہ یہ ایمبولینسز 20 ماہ سے گودام میں کھڑی ہیں جن پر حکومتِ آزاد کشمیر نے 40 کروڑ روپے خرچ کیے ، لیکن یہ عوامی خدمت کے لیے آج تک استعمال نہیں ہو سکیں۔
یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر گاڑیاں کسی ہنگامی ضرورت کے تحت خریدی گئی تھیں تو وہ آج تک عوام کی خدمت میں کیوں نہیں لائی جا سکیں؟
واضح رہے کہ 20 اپریل 2023 کو انوارالحق کی سربراہی میں آزاد کشمیر میں نئی حکومت قائم ہوئی۔ انوارالحق کو ایوان میں 53 میں سے 48 ووٹ حاصل ہوئے، جن میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف فارورڈ بلاک اور پاکستان تحریک انصاف کے ارکان شامل تھے۔
اس حکومت کے قیام کے فوری بعد وفاقی حکومت نے آزاد کشمیر میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے لیے مزید 11 ارب روپے جاری کیے۔ اس رقم کا بڑا حصہ سابقہ واجبات کی ادائیگی میں خرچ ہوا، جبکہ باقی رقم سے مختلف خریداریوں پر خرچ کی گئی۔
انہی ابتدائی خریداریوں میں آزاد کشمیر کے مختلف اسپتالوں کے لیے 24 ایمبولینسز کی خریداری بھی شامل تھی، جو بعد میں کرپشن اور بے ضابطگیوں کی وجہ سے متنازعہ بن گئی۔ یہ معاملہ نہ صرف تنازعے کی صورت اختیار کر گیا بلکہ حکومت کی نیت، کارکردگی، شفافیت اور احتسابی نظام پر بھی کئی سوالات کھڑے کر گیا۔
ایہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپریل 2024 سے 31 اکتوبر 2024 تک آزاد کشمیر میں صرف دو وزراء موجود تھے اور ان کے پاس بھی کوئی قلمدان نہیں تھا۔ اس دوران تمام محکموں کے قلمدان خود وزیر اعظم کے پاس تھے۔
پاکستان کشمیریوں کی سیاسی ،سفارتی ، اخلاقی حمایت جاری رکھے گا، انجینئر امیر مقام