اسلام آباد(ذوالفقار علی، شاہ زیب افضل/کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم)آزاد کشمیر میں 510 ارب روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جانے والا 969 میگاواٹ نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ ( این جے ایچ پی پی ) دونوں ہیڈ ریس ٹنل میں خرابی کی وجہ سے گزشتہ سال یکم مئی سے مکمل طور پر بند ہے اور اس کی مرمت میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
21 مارچ کو پاکستان کے وزرات آبی وسائل کی طرف سے پاکستان کی قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ این جے ایچ پی پی بند ہونے کی وجہ سے اسوقت تک توانائی کی مد میں کوئی 33 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ابتدائی معائنے اور تشخیص کی بنیاد پر منہدم ہونے والی جگہوں پر 2.5 کلومیٹر کنکریٹ لائننگ کی تعمیر اور دیگر متاثرہ علاقوں کی مرمت پر تقریباً 21.7 ارب روپے لاگت آسکتی ہے۔ اس تحریری جواب میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ کام کے آغاز کے بعد مزید تکنیکی تحقیقات، غیر جانبدار ماہرین کے پینل کی تجاویز اور پراجیکٹ کے کنسلٹنٹس کی سفارشات کی بنیاد پر لاگت میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
گذشتہ سال نومبر میں وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی زیر صدارت ایک اجلاس میں بین الاقوامی کنسلٹنٹ جیمز اسٹیونسن نے بتایا کہ اگر ایچ آر ٹی (ہیڈ ریس ٹنل) کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا جائے تو اس پر 222 ارب روپے سے زائد لاگت آئے گی اور اسے مکمل ہونے میں چند سال لگ سکتے ہیں۔
جیمز اسٹیونسن نے کہا کہ ٹنل کے اندر 13 سے 16 کلومیٹر کے درمیان خرابی کی نشاندہی کر لی گئی ہیں جس تک افقی راستوں (ایڈٹس) کے ذریعے رسائی ممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ متاثرہ حصے کو ‘کنکریٹ لائننگ’ کے ذریعے مضبوط کرنا ہوگا،جس پر آٹھ ماہ اور تقریباً 23 ارب روپے لاگت آئے گی۔
مسٹر اسٹیونسن نے کہا کہ متاثرہ حصے کی کنکریٹ لائننگ نہ صرف قابلِ عمل بلکہ تکنیکی اور اقتصادی لحاظ سے بھی موزوں حل ہے۔
اس سے پہلے بھی جولائی 2022 میں ٹیل ریس ٹنل میں خرابی کی وجہ سے یہ منصوبہ 13 ماہ بند رہا تھا اور اگست 2023 میں اس منصوبے نے دوبارہ کام شروع کیا تھا۔ اس وقت 5۔3 کلومیٹر ٹیل ریس ٹنل ( ٹی آر ٹی) کے مرمت پر بھی تقریبا 6 ارب روپے لاگت آئی تھی۔
اس وجہ سے اس دوران تقریباً 37 ارب روپے کے توانائی کا نقصان ہوا تھا۔ واپڈا نے نقصانات کے لیے تقریباً 43 ارب روپے کے انشورنس کلیمز جمع کرائے تھے۔اس منصوبے پر 2010 میں کام شروع ہوا تھا اور
اپریل 2018 میں اس منصوبے نے کام شروع کیا تھا ۔
بند کئے جانے سے پہلے این جے ایچ پی پی کبھی کبھار 1040 میگاواٹ بجلی پیدا کرتا رہا ہے حالانکہ اس کی صلاحیت 969 میگاواٹ ہے۔ واپڈا کے مطابق یہ منصوبہ سالانہ 5 ارب یونٹس بجلی نیشنل گرڈ میں فراہم کرتا رہا ہے۔ ایک یونٹ کی قیمت لگ بھگ دس روپے ہے۔
سنہ 2018 میں جب یہ منصوبہ شروع ہوا اس وقت سے دوسری مرتبہ بند ہونے تک اس منصوبے نے 20 ارب سے زیادہ بجلی کے یونٹس پیدا کیے۔
ابتدا میں واپڈا نے سنہ 1983 میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ نیلم جہلم کوہالہ ہائیڈل کمپلیکس کے نام سے شروع کیا تھا اور 500 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے نیلمدریا کا رخ 20 کلومیٹر دریائے جہلم کے اوپر والے حصے کی طرف موڑ دیا جانا تھااور دوسرے مرحلے میں 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے دریائے نیلم اور جہلم دونوں کا رخ 10 کلومیٹر سرنگ کے ذریعے موڑ دیا جانا تھا۔
نیلم جہلم کوہالہ ہائیڈل کمپلیکس کا مطالعہ 1987 میں مکمل ہوا ۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبے کے اصل پی سی-ون کی منظوری ایکنک نے 31 دسمبر 1989 کو اپنے اجلاس میں دی، جس کی لاگت 15ارب روپے مقرر کی گئی تھی اور اسے 90 ماہ (7.5 سال) میں مکمل کیا جانا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی کام، منصوبہ بندی، تفصیلی انجینئرنگ ڈیزائن اور ٹینڈر دستاویزات کی تیاری غیر ملکی کنسلٹنٹس کے ذریعے، مقامی عملے کی مدد سے کرنی تھی۔
رپورٹ کے مطابق ایم/ایس نورکنسلٹ کے ساتھ منصوبے کی فزیبلٹی اور تفصیلی ڈیزائن کی تیاری کا معاہدہ پانچچ سال کی تاخیر سے 23 نومبر 1994 کو کیا گیا۔ منصوبے کی تکمیل کی کل مدت 90 ماہ تھی لیکن کنسلٹنٹس کی تقرری میں ہی پانچ سال لگ گئے، حالانکہ یہ عمل منصوبے کی منظوری کے چھ ماہ کے اندر مکمل ہونا چاہیے تھا۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 1989 میں فرانسیسی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران فرانس کی جانب سے مالی امداد کی پیشکش کی گئی تھی لیکن اکنامک افئیرز ڈویزن کی جانب سے اس کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اصل میں پی سی-ون میں دی گئی ہدایات پر عمل نہ ہونے کے باعث غیر ملکی کنسلٹنٹس کی تقرری میں تاخیر ہوئی، جس کے نتیجے میں منصوبے کی لاگت 15 ارب روپے (1989) سے بڑھ کر 84 ارب روپے (2002) ہو گئی، اور قومی خزانے کو 69 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
بعد میں اکتوبر سنہ 1997 میں واپڈا کے منصوبے کے متبادل کے طور پر ایم ایس نارکنسلٹ نے تفصیلی انجینئرنگ، ڈیزائننگ اور ٹینڈر دستاویزات تیار کئے۔یہ 500 میگا واٹ کے بجائے 969 میگاواٹ منصوبے میں بدل دیا گیا اور اس کا نام نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ رکھا گیا۔
ای سی این ای سی نے 2002 میں 84 ارب روپے کا پی سی ون منظور کیا۔ 2005 تک اس پر کام شروع نہیں ہوسکا۔سنہ 2005 میں تباہ کن زلزلے کے بعد منصوبے کی جگہ متاثر ہوئی تھی اور ڈیزائن میں تبدیلی
کی ضرورت تھی مگر ابتدا میں ایسا نہیں کیا گیا۔
سنہ 2007 میں ایم/ایس سی جی جی سی –سی ایم ای سی کے ساتھ زلزلے سے پہلے کی ڈیزائن کی بنیاد پر ایک معاہدہ کیا گیا اور 2015 میں یہ منصوبہ مکمل ہونا تھا۔ پروجیکٹ کنسلٹنٹس کے جوائنٹ وینچر پر مشتمل تھا۔
سنہ 2008 میں پانچ بین الاقوامی فرمیں ےعنی نیلم جہلم کنسلٹنٹس ( این جے سی) کو ڈیزائن کا جائزہ لینے اور منصوبے کی تعمیراتی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے انگیج کیا گیا۔اس مرحلے پر منصوبے کے لیے رقم اور بجلی دستیاب نہیں تھی جس کی وجہ سے منصوبے پر کام شروع نہ ہوسکا۔
وقت کے ضیاع کی وجہ سے سنہ 2010 میںروائتی ڈرل اور بلاسٹ کے بجائے ٹنل بورنگ مشینیں متعارف کروائی گئیں۔سنہ 2013 میں ایک بار پھر ای سی این ای سی نے 272 ارب روپے کا دوسرا پی سی ون منظور کیا اور منصوبے کی تکمیل کے لیے نومبر 2016 کا وقت مقرر کیا گیا۔
سنہ 2015 میں 404 ارب روپے کا تیسرا نطرثانی پی سی ون منظور کیا گیا اور تکمیل کے لیے نومبر 2016 ہی مقرر کیا گیا۔ یہ منصوبہ بعد میں 510 ارب روپے تک جا پہنچا اور یہ منصوبہ نومبر 2016 کے بجائے اپریل 2018 میں مکمل ہوا۔
پاکستان کے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے پر ابتدائی تخمینے سے 389 ارب روپے زیادہ لگے اور یہ کہ یہ منصوبہ بہت پہلے مکمل ہونا چاہیے تھا لیکن اس منصوبے کو مکمل ہونے میں اکیس سال لگے۔
واضح رہے یہ یہ منصوبہ 404 ارب روپے کی بجائے 510 ارب روپے میں مکمل ہوا یعنی 495 ارب روپے زیادہ لاگت آئی اور منصوبہ 2016 کے بجائے 2018 میں مکمل ہوا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ 2002 کے پی سی ون کے مطابق یہ منصوبہ 2010 تک مکمل ہونا تھا لیکن یہ منصوبہ جون 2016 تک بھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منصوبے کی تکمیل میں چھ سال کے تاخیر کی وجہ سے کوئی 2 کھرب 37 ارب کا نقصان ہوا۔
.رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اس کی وجہ ناقص منصوبہ بندی، منصوبے کے لیے فنڈز کا انتظام نہ کرنا اور پی ایس ڈی پی سے 144 ارب 70 کروڑ روپے فنڈز جاری نہ ہوناہے۔رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ کنسلٹنٹس کی تعناتی کے بغیر ہی کنڑیکٹر کو 90 ارب 90 کروڑ کا ٹھیکہ دیا گیا۔
اس رپورٹ کے مطابق پرارمنس گارنٹی حاصل نہ کرکے غیر ملکی قرضے کی معطلی ہوئی جس کے باعث منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے 48 ارب 80 کروڑ کا نقصان ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چٹان پٹھنے کے واقعے کے بعد کنٹریکٹر کو بغیر کسی جواز کے 17 کروڑ 50 لاکھ روپے دئے گئے۔
اس واقعے کے باعث 7 ماہ کام رکا رہا جس کی وجہ سے 30 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ارب روپے کی لاگت سے 23ٹی بی ایم استعمال کیے جانے پر سوالات ہیں کیوں کہ اس کےاستعمال کے باوجود کام وقت پر مکمل نہیں ہوا اور بغیر ٹنڈر کے یہ مشین خریدی گئیں اور اس کی اصل قیمت بھی پتہ نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کے کنسلٹنٹس کی ناقص کارکردگی کے باعث 16 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کنٹریکٹر نے وقت پر کام مکمل نہیں کیا جس کے نتیجے میں ان سے 10 ارب روپے کا نقصان وصول نہیں کیا گیا۔
اس میں یہ بھی کہا کہ پانی کے حقوق سے محروم ہونے کی وجہ سے سالانہ جاریہ نقصان 5 ارب 15 کروڑ ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 27 گاڑیوں کے ناجائز استعمال کی وجہ سے 38 کروڑ کا نقصان ہوا۔ اس میں کہا گیا کہ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سی کنٹریکٹر کو تاخیر سی رقم ادا کی گئی جس کی وجہ 11 کروڑ 48 لاکھ روپے معاوضہ دینا پڑا۔
نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پرجیکٹ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ فالٹ لائن کے قریب تعمیر کیا گیا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں کسی ممکنہ زلزلے یا سیلاب کے نتیجے میں متاثر ہوسکتا ہے۔
حال ہی میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر ارضیات نے کہا کہ اس منصوبے پر 2005 کے تباہ کن زلزلے کے بعد کام شروع کیا گیا جبکہ اس کا ڈیزائن زلزلے سے پہلے تیار کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہےاس منصوبے کی نوسیری سے شروع ہونے والی ٹنل فالٹ لائن سے گزرتی ہے۔
ماہر ارضیات کہتے ہیں کہ2005 کے زلزلے کی وجہ سے مظفرآباد اور اس کے نواح میں پہاڑیاں بھی اندر سےٹھوٹ پھوٹ چکی ہیں اور کمزور ہوئی ہیں جس کے باعث اس منصوبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے ڈیم کے ایک طرف مکمل کنکریٹ کی گئ ہے جبکہ دوسری جانب پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ممکنہ زلزلے یا سیلاب یا بادل پھٹنے کے نتیجے میں آنے والے طغیانی اس منصوبے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ اس کے ڈیزائن میں خرابیاں ہیں اور یہ کہا کہ منصوبہ شروع کرنے سے پہلے تفصیلی جیولوجیکل سروے کیوں نہیں کروایا گیا؟
ان کا کہنا ہے کہ سال 2022 میں منصوبے کی ٹیل ریس ٹنل میں خرابی کی وجہ سے بجلی کی پیداوار معطل ہوئی اور اس منصوبے کی تعمیر میں جیو فزیکل اور سیسمک عوامل کو نظر انداز کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہیڈ ریس ٹنل کی مناسب کنکریٹ لائننگ نہیں کی گئی ہے۔
بین الاقوامی کنسلٹنٹ جیمز اسٹیونسن نے بھی حکومت پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ متاثرہ حصے کو ‘کنکریٹ لائننگ’ کے ذریعے مضبوط کیا جائے ۔ ان کا کہنا ہے کہ متاثرہ حصے کی کنکریٹ لائننگ نہ صرف قابلِ عمل ہے بلکہ تکنیکی اور اقتصادی لحاظ سے بھی موزوں ہے۔