شادی، عورت کے حقوق کی حد نہیں،بیٹی کو والد کی جگہ نوکری کا حق حاصل، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ پاکستان نے سرکاری ملازم کی وفات کے بعد اس کی بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس پر فیصلہ دیتے ہوئے اسے والد کی جگہ ملازمت کا حقدار ٹھہرایا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے 9 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیاجس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ عورت کی شناخت، قانونی حیثیت اور خودمختاری شادی کے بعد بھی برقرار رہتی ہے۔ عدالت نے سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے متعلقہ محکمے کو حکم دیا کہ درخواست گزار خاتون کو تمام سابقہ مراعات کے ساتھ بحال کیا جائے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا سول سرونٹس رولز کے تحت مرحوم یا طبی بنیادوں پر ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے تمام بچے ملازمت کے اہل ہیں۔ شادی شدہ بیٹیوں کو محض ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر اس حق سے محروم کرنا آئین کے آرٹیکل 14، 25 اور 27 کی خلاف ورزی ہے۔

سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ محض ایک وضاحتی خط کے ذریعے رولز میں تبدیلی غیر قانونی ہے کیونکہ ایگزیکٹو ہدایات قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتیں۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلام عورت کو جائیداد، آمدنی اور مالی معاملات پر مکمل اختیار دیتا ہے، اور پاکستان خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے عالمی کنونشن کا بھی پابند ہے۔

عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ مالی خودمختاری عورت کا بنیادی حق ہے، جو شادی کے ساتھ مشروط نہیں ہو سکتا۔ عدالت نے خواتین کے معاشی اور قانونی حقوق کو تسلیم کرنے اور ایسی سماجی روایات کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا جو شادی کے بعد خواتین کو عوامی حقوق سے محروم کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: محکمہ مال میں غلطیوں کی اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے، پٹواری تنہا اس کا مرتکب نہیں ہو سکتا: ڈپٹی کمشنر مظفرآباد

فیصلے میں عدالتوں اور انتظامی اداروں کو صنفی حساس اور غیر جانبدار زبان استعمال کرنے کی بھی ہدایت کی گئی، اور کہا گیا کہ پدرشاہی سوچ کی عکاسی کرنے والے الفاظ آئینی اقدار کے منافی ہیں۔

سپریم کورٹ نے خاتون درخواست گزارکے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے متعلقہ ادارے کو ان کی بحالی اور سابقہ مراعات کی فراہمی کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ نہ صرف متاثرہ خاتون کیلئے انصاف کی بحالی ہے بلکہ ایک تاریخی نظیر بھی ہے جو آئندہ ایسے تمام مقدمات پر لاگو ہوگی۔

Scroll to Top