مظفرآباد(کشمیر انوسٹیگیشن ٹیم، کشمیر ڈیجیٹل میڈیا)آزاد کشمیر کی حکومت کے سرکاری دستاویزات کے مطابق جنوبی ضلع میرپور میں قائم تیل اور گھی تیار کرنے والی سات کمپنیوں نے مبینہ طور پر ٹیکس کی چھوٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تقریباً ایک کھرب دس ارب روپے مالیت کا خام تیل درآمد کیا۔
تاہم دستاویزات کے مطابق اس خام تیل کا بڑا حصہ آزاد کشمیر تک نہیں پہنچ سکا اور اسے غیر قانونی طور پر پاکستان کی مارکیٹ میں فروخت کر دیا گیا۔سرکاری ذرائع سے اکٹھی کی گئی معلومات کے مطابق ایک کمپنی نے 2022-2023 کے دوران 27 ارب روپے سے زائد مالیت کا خام تیل درآمد کیا۔
دوسری کمپنی نے 2021-2022 کے دوران 20 ارب روپے سے زائد مالیت کا خوردنی تیل درآمد کیا۔ایک اور کمپنی نے 20 ارب روپے مالیت کا خام خوردنی تیل درآمد کیا۔ایک کمپنی نے 2021-2022 میں 3 ارب روپے سے زائد مالیت کا خام تیل درآمد کیا جبکہ 2022-2023 میں 7 ارب روپے سے زائد مالیت کا تیل درآمد کیا۔ایک اور کمپنی نے 4 ارب روپے سے زائد مالیت کا تیل درآمد کیا۔
ایک دوسری کمپنی نے 2017 سے 2022 تک 11 ارب روپے سے زائد مالیت کا خوردنی تیل درآمد کیا۔تاہم، ایک اور تیل اور گھی کمپنی کا ریکارڈ دستیاب نہیں ہو سکا۔ان میں بعض کمپنیاں 2014 اور 2016 کے درمیان آزاد کشمیر میں رجسٹر ہوئیں، جبکہ زیادہ تر 2018 میں یا اس کے بعد قائم کی گئیں۔
مینوفیکچرنگ کمپنیز کو کس ٹیکس کی چھوٹ کس قانون کے تحت دی جاتی ہے؟انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی سیکشن ڈی-65 کے مطابق، آزاد کشمیر میں مینوفیکچرنگ کمپنیز کو پہلے پانچ سال کے لیے انکم ٹیکس 100 فیصد انکم ٹیکس کریڈٹ کی اجازت تھی، جو کمپنی خود کلیم کر سکتی تھی۔
سنہ 2021 میں آزاد کشمیر کی حکومت نے انکم ٹیکس کریڈٹ ختم کر دیا تھا۔ تاہم، دفعہ 65-ڈی کے تحت حکومت پاکستان نے 30 جون 2022 سے پہلے قائم ہونے والی مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو انکم ٹیکس کریڈٹ کی اجازت دی جو آزاد کشمیر میں بھی لاگو ہو گیا۔
اس کے علاوہ آزاد کشمیر حکومت کے 1995 کے نوٹیفکیشن کے مطابق، آزاد کشمیر میں رجسٹرڈ کسی بھی مینوفیکچرنگ کمپنی کو ابتدائی پانچ سال کے دوران 18 فیصد سیل ٹیکس چھوٹ دی جاتی ہے۔سیلز ٹیکس کی چھوٹ مینوفیکچرنگ کمپنیز کو سیلز ٹیکس پر چھوٹ اس وقت ملتی ہے جب خام تیل آزاد کشمیر میں لا کر اس کی پراسیسنگ اور پیکیجنگ کر کے مارکیٹ میں فروخت کیا جائے گا۔
مثال کے طور پر، اگر کسی کمپنی نے ایک لاکھ روپے کا خام تیل لایا، جسے پراسیس اور پیکجنگ کے بعد 1.5 لاکھ روپے میں فروخت کیا، تو سیلز ٹیکس ویلیو ایڈیشن پر لاگو ہوگا، یعنی 50 ہزار روپے پر سیلز ٹیکس لیا جائے گامگر آزاد کشمیر میں پہلے پانچ سال کیلئے یہ معاف ہوتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آیا آزاد کشمیر میں رجسٹرڈ یہ کمپنیاں ٹیکس چھوٹ کی اہل ہیں؟سرکاری دستاویزات کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ بیشتر کمپنیوں کے پاس مطلوبہ پیداواری صلاحیت نہیں اور نہ ہی ایکسائز ٹول پوسٹس پر اتنی بڑی مقدار میں تیل و گھی کی نقل و حمل کا کوئی ریکارڈ موجود ہے۔
اگر کچھ کمپنیوں کے پاس مشینری اور عملہ موجود بھی ہےتو وہ کم ہے۔ دستاویزات کے مطابق، ان کمپنیوں نے خود کو مینوفیکچررز کے طور پر رجسٹر کیا ہے تاکہ مینوفیکچرنگ کمپنیز کیلئے مخصوص ٹیکس چھوٹ کا فائدہ اٹھاسکیں۔
تاہم دستاویزات کے مطابق بیشتر کمپنیوں نے آزاد کشمیر میں مینوفیکچرنگ نہیں کی یا بہت کم کی، اور وہ خام تیل کا بیشتر حصہ پاکستان کے مختلف شہروں میں اوپن مارکیٹس میں فروخت کر چکیں۔دستاویزات کے مطابق ان میں بعض کمپنیز کمرشل امپوٹر ہیں لیکن خود کو مینوفیکچرنگ کمپنی کے طور پر ظاہر کرنے کا مقصد ٹیکس چھوٹ کا فائدہ اٹھانا اور کمرشل امپورٹرز پر لاگو ٹیکسز سے بچنا تھا۔
دستاویزات میں کہا گیا کہ درآمد کے مرحلے پر بھی ان پر 3.5 فیصد انکم ٹیکس لیا جانا چاہیےنہ کہ 2 فیصد جو مینوفیکچرنگ کمپنیز ٹیکس کریڈٹ کے اہل ہیں۔کیا درآمد کے مرحلے پر سیلز ٹیکس یا انکم ٹیکس کی چھوٹ ہوتی ہے؟ عہدیداروں کا کہنا ہےاگرچہ درآمد کے مرحلے پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ نہیں ہوتی۔
مگر ان کا خیال ہے کہ ایسے امکانات بھی موجود ہیں کہ ان کمپنیوں نے درآمد کے موقع پر بھی سیلز ٹیکس کی چھوٹ حاصل کی ہو۔ اس بارے میں ان لینڈ ریونیو کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔پاکستان کے محکمہ کسٹمز کا ویب بیسڈ کسٹمز سسٹم (وی بی سی او ایم) ایک مقامی طور پر تیار کردہ کمپیوٹرائزڈ کلیئرنس سسٹم ہے جو درآمد اور برآمد مال کی خودکار کسٹمز کلیئرنس کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
آزاد کشمیر کے میرپور میں تعینات کمشنر ان لینڈ ریونیو کو ایک آئی ڈی جاری کی جاتی ہے، جس کے ذریعے وہ لاگ ان کر سکتے ہیں۔ بعض عہدیداروں کا خیال ہے کہ ایسے امکانات موجود ہیں کہ ان لینڈ ریونیو کے افسران نے آزاد کشمیر میں قائم کمپنیوں کو درآمد پر آن لائن ٹیکس چھوٹ کی سرٹیفکیٹ جاری کی ہو۔ تاہم، اس کا ریکارڈ میرپور ان لینڈ ریونیو کے دفتر میں موجود نہیں ہوتا۔
جب کمشنر تبدیل ہوتا ہےتو نئے کمشنر کو الگ آئی ڈی جاری کی جاتی ہے، اور انہیں یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے پیشرو نے کسی کمپنی کو ٹیکس چھوٹ کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا یا نہیں۔جون 2018 سے اب تک کمشنر ان لینڈ ریونیو، ان ڈائریکٹ ٹیکسز یا کمشنر ان لینڈ ریونیو ساؤتھ زون کے چھ کمشنرز تبدیل ہو چکے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق، حال ہی میں ایک کمشنر نے ٹول پوسٹس کے انچارج کو تیل اور گھی کی نقل و حمل کے بارے میں تفصیل فراہم کرنے کیلئے خطوط لکھے اور ساتھ ہی پاکستان کے کسٹمز حکام کو خطوط لکھے کہ ان کمپنیز کی طرف سے درآمد کی جانے والی کل مقدار کے بارے میں تفصیل فراہم کی جائے۔ تاہم ان کے تبادلے تک ان کو جواب نہیں مل سکا تھا۔
آزاد کشمیر کی حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے 15 جنوری کو فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی۔کمیٹی کے چیئرمین کمشنر ان لینڈ ریونیو نارتھ زون اشتیاق احمد کو مقرر کیا گیا، جبکہ ایڈیشنل سیکریٹری قانون فدا مختار، ڈپٹی کمشنر تنویر خالد اور آڈٹ آفیسر صابر حسین بلوچ کمیٹی کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔
کمیٹی کو سترہ اہم نکات پر کام کرنا تھا، جن میں اہم نکات یہ تھےیہ جانچنا کہ آیا کمپنیاں ان لینڈ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مینوفیکچرنگ کے طور پر رجسٹرڈ ہیں یا نہیں۔پاکستان کسٹمز سے ان کمپنیوں کی درآمد کردہ خام تیل اور گھی کی تفصیل اور گڈز ڈیکلریشن حاصل کرنا۔
کسٹمز کے کلکٹر سے یہ معلومات حاصل کرنا کہ آیا ان لینڈ ریونیو کے کمشنر نے کسی کمپنی کو ٹیکس چھوٹ کی سرٹیفکیٹ جاری کی یا نہیں۔کاروباری مقامات پر پلانٹ اور مشینری کا معائنہ کرنا تاکہ یہ تصدیق کی جا سکے کہ ان کے پاس پروسیسنگ اور پیکنگ کی ضروری سہولتیں موجود ہیں۔
ٹول پوسٹس پر موجود ریکارڈ کا جائزہ لے کر یہ تصدیق کرنا کہ خام تیل میرپور میں مینوفیکچرنگ کے لیے آیا اور پروسیس شدہ مال بعد میں منتقل کیا گیا۔تقسیم کے چین کی جانچ پڑتال کر کے ہول سیلرز، ڈسٹری بیوٹرز اور ریٹیلرز کی شناخت کرنا جنہوں نے پروسیس شدہ مصنوعات حاصل کیں۔
یہ تصدیق کرنا کہ ہر کمپنی انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی چھوٹ کے لیے قانونی طور پر اہل تھی یا نہیں۔چھوٹ کے غلط استعمال سے ٹیکس کی آمدنی (انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس) کے نقصانات کا تجزیہ کرنا۔
اگر یہ ثابت ہوتا کہ کمپنیاں چھوٹ کیلئے اہل نہیں تھیں یا غیر قانونی چھوٹ دی گئی تھی، تو ذمہ دار حکام کے خلاف کارروائی کرنا۔لیکن اس کمیٹی نے ابھی کام شروع نہیں کیا تھا کہ ایک کمپنی نے اس کے خلاف ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کیا اور عدالت نے اس کمیٹی کو معطل کر دیا۔
کمپنیز ان الزامات کی تردید کرتی ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ وہ درآمد کے مرحلے پر 18 فیصد سیلز ٹیکس جمع کراتی ہیں اور یہ کہ وہ مینوفیکچرنگ کمپنیز ہیں۔ان کمپنیز کا موقف اپنی جگہ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں اسٹے آرڈر قانونی یا انصاف کے عمل سے زیادہ ایک حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس کا مقصد فیکٹ فائنڈنگ کی کارروائی کو روکنا یا اس میں تاخیر کرنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسٹے آرڈر کے ذریعے وہ یہ چاہتے ہوں گے کہ ان کے خلاف کوئی ایسی معلومات سامنے نہ آئیں جو بعد میں ان کے خلاف استعمال ہو۔آزاد کشمیر میں ٹیکس چھوٹ کے دو بنیادی مقاصد ہیں
سرمایہ کاری کو فروغ دینا:
ٹیکس چھوٹ کا مقصد یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کار آزاد کشمیر میں آ کر کاروبار کریں، جس سے اس علاقے میں اقتصادی ترقی ہو اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہو۔ اس سے معیشت کو بھی فائدہ پہنچنا تھا۔
روزگار کے مواقع فراہم کرنا:
حکومت کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ کاروبار کے فروغ سے آزاد کشمیر کے مقامی لوگوں کو نوکریاں ملیں، جس سے مقامی معیشت میں بہتری آئے۔لیکن عملی طور پر یہ منصوبہ کامیاب نہیں رہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ جب کمپنیوں نے ٹیکس چھوٹ کے فائدے کے لیے آزاد کشمیر میں رجسٹریشن کرائی، تو ان میں بیشتر کا آزاد کشمیر میں وجود برائے نام تھا۔
حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں نے صرف ٹیکس چھوٹ حاصل کرنے کے لیے رجسٹریشن کرائی، لیکن ان کا کاروبار یا پیداوار آزاد کشمیر میں بہت کم یا نہ ہونے کے برابر تھا۔
نتیجتاً نہ تو سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، اور نہ ہی مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔پاکستان اور آزاد کشمیر کو نقصانمجموعی طور پر ٹیکس چھوٹ کا مقصد آزاد کشمیر میں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا تھا، لیکن عملی طور پر ان کمپنیوں نے ان فوائد کا فائدہ اٹھایا جو انہوں نے آزاد کشمیر میں رجسٹر ہو کر حاصل کیے مگر آزاد کشمیر کی معیشت کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچا۔ اس کے علاوہ، پاکستان کو ٹیکس کی مد میں نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔