آزادکشمیر کا انحصار وفاقی گرانٹس پر،ترقیاتی بجٹ میں مقامی وسائل کا حکومتی دعوی ٰبے بنیاد نکلا

مظفرآباد(ذوالفقار علی،کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم ( کے آئی ٹی)آزاد جموں و کشمیر حکومت نے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں کہا ہے کہ وہ ترقیاتی بجٹ میں اپنے وسائل سے 17 ارب روپے دے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اندرونی ذرائع سے اس مقصد کے لیے ایک روپیہ بھی مختص نہیں کیا گیا۔ یہ دعویٰ صرف گمراہ کن نہیں بلکہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔

ایسا ہی دعویٰ موجودہ مالی سال 2024-25 میں بھی کیا گیا تھا، جب حکومت نے کہا تھا کہ وہ ترقیاتی بجٹ میں اپنے ذرائع سے 13 ارب روپے دے گی۔ یہ رقم ترقیاتی بجٹ میں دکھائی گئی اور عوامی بیانات میں اس کا ذکر بھی کیا گیا، لیکن اصل میں اس مقصد کے لیے ایک پیسہ بھی مختص نہیں کیا گیا۔ یہی بات مالی سال 2023-24 میں بھی سامنے آئی، جب حکومت نے کہا تھا کہ وہ 12 ارب روپے مقامی ذرائع سے دے گی، لیکن حقیقت میں کچھ بھی نہیں دیا گیا۔

سچ یہ ہے کہ 1947 سے آج تک آزاد کشمیر حکومت نے اپنے وسائل سے کبھی ترقیاتی منصوبوں پر کوئی رقم خرچ نہیں کی۔ ہر سال ترقیاتی بجٹ مکمل طور پر پاکستان کی حکومت کی گرانٹس پر انحصار کرتا ہے۔ مقامی حکومت صرف اعلانات کرتی ہے، جن پر عمل نہیں ہوتا۔

گزشتہ مالی سال 2023-24 میں آزاد کشمیر میں 25.8 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیے گئے، اور یہ تمام رقم حکومتِ پاکستان کی طرف سے دی گئی گرانٹ تھی۔ موجودہ مالی سال 2024-25 میں بھی 30 جون تک 28 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے، جو مکمل طور پر وفاق نے دیے ہیں۔ اگلے مالی سال 2025-26 کے لیے 31 ارب روپے کی وفاقی گرانٹ کی امید ہے، جب کہ ایک ارب روپے غیر ملکی امداد کی توقع ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں مقامی وسائل سے جو 17 ارب ظاہر کیے گئے ہیں وہ مختص ہوئے ہی نہیں ہیں۔

درحقیقت، ترقیاتی بجٹ میں جو کل رقم دکھائی جاتی ہے، اس میں بیرونی امداد، حکومتِ پاکستان کی گرانٹ، اور مقامی ذرائع شامل ہوتے ہیں۔ لیکن مقامی ذرائع کے تحت جو رقم دکھائی جاتی ہے، وہ حقیقت میں مختص ہی نہیں کی جاتی — صرف کاغذ پر لکھی جاتی ہے۔

یہ جھوٹے دعوؤں پر مبنی بجٹ سازی پچھلے تین سال سے مسلسل جاری ہے، جس میں “اپنے وسائل” سے ترقیاتی بجٹ میں حصہ ڈالنے کی بات کی جاتی ہے، لیکن حقیقت میں نہ کوئی رقم رکھی جاتی ہے اور نہ خرچ ہوتی ہے۔ یہ صرف گمراہ کن نہیں بلکہ سرکاری سطح پر دھوکہ دہی ہے۔ اس سے عوام، میڈیا، اور پالیسی بنانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ آزاد کشمیر مالی طور پر خود کفیل ہے، جب کہ اصل میں تمام ترقیاتی اخراجات پاکستان کی حکومت اٹھاتی ہے۔

اگر آزاد کشمیر کی ترقی مکمل طور پر وفاقی حکومت کی مدد پر چلتی ہے تو بجٹ میں بھی صاف صاف یہ بات لکھی جانی چاہیے، نہ کہ فرضی اعداد و شمار سے سچ کو چھپانے کی کوشش کی جائے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جو ترقیاتی گرانٹ وفاقی حکومت دیتی ہے، وہ بھی اکثر وقت پر استعمال نہیں ہوتی۔ بجٹ کا بڑا حصہ مالی سال کے آخری مہینے، یعنی جون میں خرچ کیا جاتا ہے، جس سے منصوبوں کی کارکردگی اور شفافیت پر سوال اٹھتے ہیں۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں نہ صرف بجٹ خرچ کرنے کی صلاحیت کم ہے بلکہ پورا نظام سست اور غیر موثر ہے۔ اسی لیے بہت سے مقامی لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ وفاق بلاک گرانٹ دینے کے بجائے ہر منصوبے کے لیے الگ فنڈ جاری کرے تاکہ پیسے کا ضیاع نہ ہو۔

یہ پوری صورتحال اُس وقت اور بھی سنگین لگتی ہے جب ہم آزاد کشمیر کے سرکاری نظام کے حجم اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کو دیکھتے ہیں۔ آزاد کشمیر ریاست جموں و کشمیر کے کل رقبے کا صرف 6 فیصد ہے، اور اس کی آبادی تقریباً 27 لاکھ ہے، لیکن اس چھوٹے سے علاقے کے لیے ایک بڑا اور مہنگا سرکاری ڈھانچہ قائم ہے۔

یہاں ایک صدر، ایک وزیرِاعظم، 53 رکنی قانون ساز اسمبلی، 32 سیکریٹری، 10 ڈپٹی کمشنر، 3 ڈویژنز (ہر ایک کے ساتھ کمشنر)، تقریباً 40 محکمے اور خود مختار ادارے، اور لگ بھگ 1 لاکھ 20 ہزار سرکاری ملازم کام کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آزاد کشمیر کی اپنی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی قائم ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جب مقامی ذرائع سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں دیا جا رہا تو اتنا بڑا، مہنگا اور نمائشی سرکاری نظام کیوں رکھا گیا ہے؟ کیا یہ نظام عوامی فائدے کے لیے کام کر رہا ہے یا صرف دکھاوے کے لیے موجود ہے؟ کیا اس کا کوئی حقیقی جواز بھی ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ آزاد کشمیر کا نظام گزشتہ 77 سال سے ایک دکھاوے اور غیر موثر انداز پر چل رہا ہے۔ بجٹ میں خود کفالت کے جھوٹے دعوے کئے جاتے ہیں، ترقیاتی فنڈز کا مکمل انحصار وفاق پر ہوتا ہے، اور جو پیسہ آتا ہے وہ بھی وقت پر اور صحیح طریقے سے خرچ نہیں ہوتا۔

اس کے ساتھ ایک بھاری اور مہنگا سرکاری نظام بھی موجود ہے جو عوام کو کوئی واضح فائدہ نہیں دے رہا۔ یہ سب کچھ دیانت، شفافیت اور مالی خودمختاری سے خالی ہے۔

کشمیری صحافی مغربی میڈیا سے روابط بڑھائیں، بھارتی بیانیہ بے نقاب کریں:ظفر احمد قریشی کا مشورہ

Scroll to Top