الیکشن ایک سال بعد: آزاد حکومت چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کیلئے مشاورت شروع کیوں نہ کرسکی؟

مظفرآباد(ذوالفقار علی،کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم) رواں سال 13 جنوری کو چیف الیکشن کمشنر کی مدتِ ملازمت مکمل ہو گئی، جس کے بعد سے یہ منصب خالی ہے، حالانکہ اگلے سال جون یا جولائی میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔
واضح رہے کہ چار ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے لیکن آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے بارے میں ابھی تک کوئی عمل شروع نہیں کیا اور نہ ہی اس بابت قائد حزب اختلاف سے کوئی مشاورت کی گئی۔

قانونی ماہرین کے مطابق یہ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی رکھنا آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کے آئین کے آرٹیکل 50 کی رو سے آزاد کشمیر کے وزیراعظم اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سے مشاورت کے بعد ممکنہ امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دے کر چیئرمین کشمیر کونسل کو ارسال کرتے ہیں جو بحیثیت عہدہ وزیراعظم پاکستان ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق آزاد جموں کشمیر کونسل کی چیرمین ان میں سے کسی ایک نام کا انتخاب کرکے آزاد کشمیر کے صدر کو تقرری کے لیے بھیجتے ہیں اور صدر آزاد کشمیر ان کو چیف الیکشن کے طور پر تعینات کرتے ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق آئین میں واضح ہے کہ اس عہدے کو خالی نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 50 کی شق 9 میں کہا گیا ہے”اگر چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی ہو جائے، یا کمشنر کسی وجہ سے غیر حاضر ہو یا اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہ ہو، تو آئینی طور پر یہ شرط رکھی گئی ہے کہ کمیشن کا سینئر رکن، جسے تقرری کے وقت باقاعدہ طور پر نامزد کیا گیا ہو، زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے لیے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے طور پر کام کرے گا۔”
ماہرین کے مطابق اس سے صاف عیاں ہے کہ اس عہدے کو خالی نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی میں تاخیر کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ان کے ذہن میں یہ ہو کہ وہ اپنی مرضی کا کوئی چیف الیکشن کمشنر تعینات کروائیں جس کے بارے میں وہ ابھی ذکر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ یہ سوچتے ہوں کہ آزاد کشمیر میں غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے قبل از وقت انتخاب کرانے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکتا ہے، جس سے بچنے کے لیے وہ یہ بہانہ بنا سکتے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر ابھی تعینات نہیں کیا گیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس آئینی خلاف ورزی پر کوئی سزا نہیں، اس لیے حکومت سمجھتی ہے کہ تاخیر کرنے سے اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
آزاد کشمیر میں چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی میں تاخیر کی باعث پاکستان کو عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے مداخلت کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔

اس صورت حال کے پیش نظر وزیر اعظم شہباز شریف نے وزیر قانون کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے اراکین آزاد کشمیر کی چیف سیکریٹری اور سیکریٹری برائے وزارت امور کشمیر ہیں۔ یہ کمیٹی چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے بارے میں اقدامات کرے گی۔

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ آزاد کشمیر میں لمبے عرصے تک چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی رہا۔ سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس غلام مصطفی مغل کی تین سال کی مدت 19 فروری 2019 کو مکمل ہوئی۔ اسی روز اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے الیکشن کمیشن کی سنیئر رکن سابق جسٹس عبدالرشید سہلیریا کو 6 ماہ کیلئے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا جن کی مدت 15 اکتوبر 2019 کو مکمل ہوگئی۔

تین مہینے یہ عہدہ خالی رہا اور عام انتخابات سے کوئی ڈیڑھ سال پہلے 14 جنوری 2020 کو سابق جسٹس عبدالرشید سہلیریا کو پانچ سال کے لیے مستقل چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا گیا۔
اسی طرح سے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں 15 اپریل سنہ 2015 سے 17 فروری 2016 تک چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی رہا۔

چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی سے پہلے آزاد کشمیر میں پاکستان کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آزاد جموں و کشمیر کونسل کے چیرمین کی ایڈوائس پر پہلے عمل کرنے سے انکار کیا تھا لیکن سپریم کورٹ کی مداخلت پر تین ماہ بعد اس پر عمل کرنا پڑا تھا۔

16 نومبر 2015 کو آزاد جموں کشمیر کونسل کے چیرمین نے آزاد کشمیر کے صدر کو یہ ایڈوائس بھیجی کہ وہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس غلام مصطفی مغل کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کرے۔
اس سے قبل 22 اکتوبر کو آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک ترمیمی آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت آزاد کشمیر کے چیف الیکشن کمشنر کے شرائط و ضوابط ایکٹ 1992 میں ترمیم کرکے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کا نیا عہدہ تخلیق کیا۔

ایک دن پہلے آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ نے یہ رائے دی تھی کہ آزاد جموں کشمیر کی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ چیف الیکشن کمشنر کے شرائط و ضوابط میں ترمیم کرسکتی ہے۔
آزاد جموں کشمیر کونسل کی چیرمین کی ایڈوائس کو نظر انداز کرتے ہوئے 29 دسمبر 2015 کو آزاد کشمیر کی حکومت نے نئے قانون کا سہارا لیتے ہوئے آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس غلام مصطفی مغل کو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا۔ لیکن انہوں نے اس عہدے کا حلف نہیں اٹھایا۔

اسی دوران مسلم لیگ (ن) نے اس قانون کو کالعدم قرار دینے کے علاوہ آئین اور آزاد جموں کشمیر کونسل کے چیرمین کی ایڈوائس کی روشنی میں مستقل چیف الیکشن کمشنر تعینات کرنے کے لیے عدالتوں میں مقدمہ لڑا۔
25 جنوری کو آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ “نومبر میں چیف جسٹس مغل کے حق میں کشمیر کونسل کی تجویز قانونی، درست اور مستند ہے”۔

اس فیصلے کے صرف تین دن بعد، آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے آزاد کشمیر چیف الیکشن کمشنر کی شرائط و ضوابط ایکٹ میں ترمیم کی جس کے تحت کسی بھی موجودہ جج کو چیف الیکشن کمشنر کے طور پر تقرر کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کے عدم نفاذ پر حکومت کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے درخواست دائر کی۔
عدالت کے مزاج کو سمجھتے ہوئے پاکستان کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے 11 فروری کو آزاد جموں کشمیر کونسل کی چیرمین کی ایڈوائس کی روشنی میں اس وقت کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس غلام مصطفی مغل کو مستقل چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا۔

اس صورت حال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آزاد کشمیر میں مختلف حکومتوں نے آئین کی پاسداری کے بجائے اپنی خواہشات کو اہمیت دی اور یہی وجہ ہے اس خطے میں غیر یقینی کی سی صورت حال پائی جاتی ہے۔
آزاکشمیر میں طوفانی بارش، طغیانی ، ٹریول ایڈوائزری جاری

Scroll to Top