بیجنگ (کشمیر ڈیسک)بھارت جہاں چین کو طاقتور دشمن کے طور پر دیکھ رہا تھا وہاں اب پاکستان کہیں خطرناک حریف کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ایک طرف لداخ سے ارونا چل پردیش تک لاکھوں کی تعداد میں چینی فوج کھڑی ہے ۔ تو دوسری طرف مغربی سرحد پر پاک فوج کی اسٹرائیک کورز ہمہ وقت چوکس ہیں۔ اب مشرق میں بنگلہ دیش اور شمال میں نیپال کی نئی دفاعی سرگرمیوں نے وہ محاذ کھول دیے ہیں جنہیں بھارت برسوں سے ’اسٹریٹجک بفر‘ سمجھتا آیا تھا۔
پاکستان نے J-10C اور رعد-II کروز میزائل کے بعد ہائپرسونک پروگرام کی جھلک دکھا دی ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارتی شمالی کمان کو مسلسل دو فرنٹ پر فورس رکھنے پر اضافی لاگت اور تھکن کا سامنا ہے۔
ہمالیہ میں لداخ سے اروناچل پردیش تک 3,488 کلومیٹر لمبی LAC ہے۔ فنگر ایریا، ڈپسنگ، باراہوتی، نتھولا اور تاوانگ وہ پانچ کلیدی پوائنٹس ہیں جہاں دونوں افواج مورچہ زن ہیں۔ حالیہ ’’جزوی ڈی سینگیجمنٹ‘‘ کے باوجود پیپلز لبریشن آرمی نے دیپسانگ اور ڈوکلام کے عقب میں مستقل انفراسٹرکچر بنا لیا ہے، جس کی نشاندہی تازہ سیٹلائٹ تصاویر نے کی ہے۔
بنگلہ دیش کے ضلع لال منیر ہاٹ جو بھارتی ’چکنز نیگ‘ سے صرف 95 کلو میٹر دور ہے ایک نئی ہوائی فیلڈ پر کام جاری ہے۔ تعمیراتی کام کا ٹینڈر ایک پاکستانی کمپنی کو ملا ہے، اور ڈھاکا کے نگراں وزیر اعظم محمد یونس نے چین کو ’بحری اور فضائی سہولت‘ کی کھلی پیش کش کر دی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق انڈین سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اس منصوبے کو PLA کے ممکنہ فارورڈ ایئر بیس کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
لیکن اس سے بھی خطرناک معاملہ یہ ہے کہ لالمونیرہاٹ ایک ایسا حساس جغرافیائی مقام ہے جو بھارت کے لیے تزویراتی لحاظ سے غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ مشہور ’چکنز نیک‘ یا سلیگُڑی کوریڈور کے بالکل دہانے پر واقع ہے۔
یہ کوریڈور محض 22 سے 25 کلومیٹر چوڑی ایک پتلی زمینی پٹی ہے جو بھارت کی سات شمال-مشرقی ریاستوں کو بقیہ ملک سے جوڑتی ہے۔ یہی تنگ راہداری بھارت کا واحد زمینی ربط ہے، اور اسی لیے اسے عسکری حلقوں میں ’’اُکھڑتی ہوئی شہ رگ‘‘ (dying jugular vein) کہا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر صرف دو بریگیڈز پر مشتمل ایک ہم آہنگ اور منصوبہ بند فوجی کارروائی کی جائے تو اس کوریڈور کو کاٹنا ممکن ہے، جس سے بھارت کے شمال مشرقی علاقے نہ صرف زمینی طور پر کٹ جائیں گے بلکہ دفاعی و رسدی سپلائی لائن بھی شدید متاثر ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ لالمونیرہاٹ اور سلیگُڑی کوریڈور چین، بنگلہ دیش، اور بھارت کے تزویراتی منصوبہ سازوں کی خاص توجہ کا مرکز ہیں۔
نیپال میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی جنوبی ایشیا کے تزویراتی منظرنامے کو تبدیل کر رہی ہے، خاص طور پر بھارت کے لیے ایک نئے دباؤ کا سبب بن رہی ہے۔ پوکھرا انٹرنیشنل ایئرپورٹ، جو مکمل طور پر چینی قرض اور کنٹریکٹ پر تعمیر کیا گیا
دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق حالیہ دنوں میں نیپالی پارلیمانی کمیٹی کی ایک رپورٹ کی زد میں آیا ہے، جس میں اسے ’’مالی بے ضابطگی اور مشکوک کنٹرول‘‘ کا حامل منصوبہ قرار دیا گیا۔ یہ صرف ایک ہوائی اڈا نہیں بلکہ چین کے ممکنہ لاجسٹک اور انٹیلیجنس ہب کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
اس کے ساتھ ہی چین کی پیپلز لبریشن آرمی (PLA) اور نیپالی فوج کی ’سرکھی کائرن‘ کے نام سے مشترکہ فوجی مشقیں بھی دوبارہ شروع ہو رہی ہیں، جو بیجنگ اور کھٹمنڈو کے درمیان عسکری ہم آہنگی کا مظہر ہیں۔
اگر مستقبل میں چین پوکھرا یا اس جیسے منصوبوں کو استعمال کرتے ہوئے انٹیلیجنس یا لاجسٹک نیٹ ورک قائم کرتا ہے، تو بھارتی ریاستوں اترکھنڈ اور بہار کی سرحدی پٹیاں شدید دباؤ میں آ سکتی ہیں، کیونکہ یہ علاقہ دفاعی لحاظ سے بھارت کا نسبتاً نرم اور کمزور حصّہ تصور کیا جاتا ہے۔ یوں نیپال، جو کبھی بھارت کا قریبی تزویراتی شراکت دار تھا، اب آہستہ آہستہ چین کے دائرۂ اثر میں کھسک رہا ہے۔
دفاعی ماہرین کے مطابق ڈوکلام بحران کے بعد بھوٹان کا لہجہ بتدریج بدلتا نظر آ رہا ہے، جو اس کے روایتی غیرجانبدار مگر بھارت نواز رویے سے ایک واضح انحراف کی نشاندہی کرتا ہے۔ چین نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھوٹان کے شمالی بیول علاقے پر دباؤ میں اضافہ کیا اور حالیہ برسوں میں ساکتینگ وادی جیسے نسبتاً نئے اور غیر متنازع پوائنٹس پر بھی دعوے جتانا شروع کر دیئے حالانکہ یہ علاقے چین کے کسی سابقہ نقشے یا بیانیے میں شامل نہیں تھے۔
یہ حکمتِ عملی ’فرینڈلی اینیکسیشن‘ یعنی دوستانہ الحاق کے دباؤ کی ایک نئی شکل ہے، جس کے ذریعے بیجنگ تھمپو کو مذاکرات اور اقتصادی تعاون کے بہانے اپنے دائرۂ اثر میں لانا چاہتا ہے۔ اگر بھوٹان اس دباؤ میں آ کر چین کے ساتھ کسی سرحدی معاہدے پر آمادگی ظاہر کرتا ہے۔ تو چمبی ویلی کے راستے بھارت کا سب سے حساس اور تنگ علاقہ سلیگُڑی کوریڈور براہِ راست چینی اثر میں آ سکتا ہے، اور یوں بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کے لیے واحد زمینی راستہ دشمن کی زد میں آ جائے گا۔ یہ منظرنامہ نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے کے تزویراتی توازن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
بھارت کے گرد تیزی سے بنتا ہوا جغرافیائی دباؤ اب محض نظریاتی نہیں بلکہ اعداد و شمار کی سطح پر بھی ایک واضح خطرہ بن چکا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان لائن آف ایکچول کنٹرول (LAC) کی لمبائی 3,488 کلومیٹر ہے، جو لداخ، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، سکم اور اروناچل پردیش جیسے حساس علاقوں سے گزرتی ہے۔
دوسری جانب پاکستان اور بھارت کی سرحد 3,323 کلومیٹر پر محیط ہے، جو پنجاب سے لے کر رن آف کچھ تک پھیلی ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ بھارت کی سرحد 4,096 کلومیٹر طویل ہے، جو پانچ بھارتی ریاستوں کو محیط کرتی ہے۔ نیپال کے ساتھ سرحد 1,770 کلومیٹر اور بھوٹان کے ساتھ 699 کلومیٹر طویل ہے، جو اروناچل، آسام، سکم اور بنگال کو چھوتی ہے۔
اگر مستقبل میں چین نیپال یا بنگلہ دیش میں کسی نیم فوجی یا لاجسٹک مرکز کا قیام عمل میں لے آتا ہے تو بھارت ایک ’پانچ محاذی نیم دائرہ‘ میں آ جائے گا، جہاں ہر جانب سے بندوقوں کی نالیاں اس کی طرف رخ کیے ہوں گی۔ ایسے میں بھارت کو جن سرحدوں سے بیک وقت خطرہ ہو گا، ان کی مجموعی لمبائی سات ہزار کلومیٹر سے تجاوز کر جائے گی ایک ایسا جغرافیائی شکنجہ جو دفاعی حکمتِ عملی کو شدید دباؤ میں ڈال دے گا۔
چین اور پاکستان کی تزویراتی ہم آہنگی بھارت کے لیے ایک ایسا گھیرا تشکیل دے رہی ہے جو اس کی دفاعی منصوبہ بندی کو ’کالڈوِلڈرم‘ یعنی گہرے جمود میں دھکیل سکتا ہے۔ مغرب میں پاکستان کا مستقل دباؤ اور شمال و مشرق میں چین کی بتدریج پیش قدمی بھارتی عسکری قیادت کو بیک وقت کئی محاذوں پر مصروف رکھ سکتی ہے۔ اگر کسی بحران یا تنازعے کے دوران سلیگُڑی کوریڈور بند ہو جاتا ہے تو بھارت کی سات شمال-مشرقی ریاستیں عملی طور پر باقی ملک سے کٹ جائیں گی
جس سے نہ صرف داخلی سلامتی بلکہ زمینی مواصلات بھی شدید متاثر ہوں گے۔ اس زمینی دباؤ کے ساتھ ساتھ بحری سطح پر بھی چین اور پاکستان کا تعاون تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ گوادر، ڈوئِنگ بھاشا اور چٹوگرام جیسے بندرگاہی مقامات کے ذریعے دونوں ممالک بحرِ ہند میں ایک مربوط میری ٹائم حکمتِ عملی پر کام کر رہے ہیں، جو براہِ راست بھارت کی بحری بالادستی اور بحرِ ہند کی سکیورٹی پالیسی کو چیلنج کرتی ہے۔
یوں چین پاکستان اتحاد، محض زمینی نہیں بلکہ سمندری محاذ پر بھی بھارت کو تزویراتی طور پر محدود کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔اگر آئندہ دہائی میں ڈھاکا، کھٹمنڈو اور تھمپو نے بیجنگ کی معاشی ترغیبات کے بدلے دفاعی لاجسٹکس اور تزویراتی رسائی کے دروازے کھول دیئے تو بھارت کا خوابیدہ ’اکھنڈ جغرافیہ‘ اُس جغرافیائی خندق میں پھنس جائے گا جس کے بارے میں برطانوی دور میں پہلے ہی ’’چکنز نیک‘‘ کے نام سے خبردار کیا گیا تھا۔
ایسی صورت میں چین اور پاکستان باہمی ہم آہنگی کے ساتھ دو طرفہ ’سی-ٹو-سی‘ یعنی کنٹیننٹل ٹو کوسٹل (سرزمین سے ساحل تک) ایک ایسا دفاعی اور اقتصادی سلائیڈنگ کنٹرول قائم کر سکتے ہیں جو بھارت کو چاروں اطراف سے دبا دے گا۔ اس تنگ دائرے میں بھارت کی فوج کو بیک وقت آٹھ مختلف تھیٹرز میں اپنی افواج پھیلانا پڑیں گی
جس کا مطلب ہے نہ صرف عسکری دباؤ بلکہ معاشی اور سیاسی تھکن بھی۔ یہ وہ اسٹریٹجک ماحول ہوتا ہے جہاں بظاہر بڑے اور طاقتور ممالک بھی اپنے ہی وزن تلے لڑکھڑا جاتے ہیں اور تاریخ نے بارہا دکھایا ہے کہ محاذوں کی زیادتی اکثر سلطنتوں کے زوال کی پیش خیمہ بنتی ہے
غیر ملکی کھلاڑیوں کا پی ایس ایل میں شرکت کیلئے پاکستان آنے کا اعلان