آزاد کشمیر : صدر ، وزیراعظم، وزرائے کرام، اراکین اسمبلی کو تنقید سے بچانے والے قانون پر نئی بحث چھڑ گئی

مظفرآباد(ذوالفقار علی،کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم )آزاد کشمیر میں سیاسی اور انتظامی اشرافیہ پر تنقید کو جرم قرار دینے والے قانون پر ایک بار پھر بحث چھڑگئی ہے او پاکستان میں صحافیوں کی تنطیم فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ( پی ایف یو جے نی مطالبہ کیا ہے کہ اس قانون کو منسوخ کیا جائے۔

مظفرآباد میں پی ایف یو جے کی صدر افضل بٹ نے کہا ” ایسا کوئی بھی قانون جو آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت اور شہری آزادیوں پو قدغن لگاتا ہے وہ آئین سے متصادم ہے کیوں آئین آزاد اظہار رائے اور شہری آزادیوں کو تحفظ دیتا ہے۔ ” انہوں نے کہا کہ ایسا قانون آئین حصہ بن کر بھی غیر آئینی ہوتا ہے۔

گزشتہ سال ستمبر میں اس خطے کی قانون ساز اسمبلی نے آزاد پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 505 میں ترمیم کی جس کے بعد صدر، وزیراعظم، وزرا، اراکین اسمبلی، افسران اور حکومتی اداروں پر تنقید جرم قرار دیا گیا تھا اور تنقید کرنے والے کو سات سال قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔

برصغیر میں برطانوی سامراج کی حکمرانی ختم ہونے کے بعد نہ صرف بھارت اور پاکستان نے اس قانون کو اپنایا، بلکہ آزاد کشمیر نے بھی اسے اپنا لیا۔ 164 سال بعد پہلی بار اس قانون میں ترمیم کی گئی اور یہ ترمیم آزاد کشمیر کی مخلوط حکومت نے کی جس کا مقصد سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کو تنقید سے بچانا ہے۔

آزاد فوجداری ضابطہ 1860 کی سیکشن 505 کیا ہے؟

1: جو کوئی بھی بیان، افواہ یا رپورٹ جاری کرے یا شائع کرے
(الف) اس نیت سے یا اس امر کے احتمال سے کہ پاکستان کے بری، بحری یا فضائیہ کے کسی افسر، سپاہی، ملاح یا ہواباز سے بغاوت کرائے یا اس پر اکسائے، یا مذکورہ حیثیت سے اپنے فرض کو نظر انداز کرائے یا اس میں کوتاہی کرائے؛ یا (ب) اس نیت سے یا اس امر کا احتمال ہو کہ عوام الناس میں یا عوام کے کسی طبقے میں خوف و ہراس پیدا کرے، جس کے ذریعے کسی شخص کو مملکت کے خلاف یا نقص عامہ کے خلاف جرم کا ارتکاب کرنے کی ترغیب دی جائے؛ یا (ج) اس نیت سے یا اس امر کے احتمال سے کہ کسی طبقے ( کمیونیٹی) یا جماعت کو کسی دوسرے طبقے یا جماعت کے خلاف جرم کے ارتکاب کے لیے اکسایا جائے تو اسے سات سال تک قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔

2: جو شخص اس نیت سے کوئی بیان یا رپورٹ جاری کرے جو افواہ یا سنسی خیز خبر پر مبنی ہوجس سے مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش، زبان، ذات یا جماعت یا کسی دیگر بنیاد پر مختلف مذاہب، نسلوں، لسانی یا علاقائی گروپوں یا ذاتوں کے درمیان دشمنی، نفرت یا عداوت کے جذبات کو فروغ ملے، تو اس کو سات سال تک قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔

اس قانون میں کیا ترمیم کی گئی ہے؟

سکیشن 505 میں ترمیم کرکے پہلے سے موجود ” وضاحت” کو وضاحت-1 کے طور پر شمار کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس دفعہ کے مفہوم میں یہ جرم نہیں ہے جب کوئی ایسا بیان، افواہ یا رپورٹ تیار، شائع کرنے یا پھیلانے والا شخص یہ ماننے کی معقول بنیادیں رکھتا ہو کہ وہ بیان حقیقت پر مبنی ہے اور اس نے نیک نیتی سے اسے جاری یا شائع کیا ہو، اور مذکورہ بالا کسی ارادے کے بغیر اسے پھیلایا ہو۔

اس میں نئی وضاحت-11 شامل کی گئی ہے، جس میں “کمیونٹی” میں صدر، وزیراعظم، وزرا اور راکین اسمبلی کے علاوہ سرکاری ادارے اور سرکاری افسر ان بھی شامل کیے گئے ہیں،جس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر تنقید کرنا جرم بن چکا ہے۔

آزاد کشمیر میں مخلوط حکومت میں وزیر اعظم چوہدری انوارالحق کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فارورڈ بلاک، نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل-این) اور بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) شامل ہیں۔ اگرچہ عمران خان کی پی ٹی آئی اسمبلی میں حزب مخالف کی جماعت ہے اور پی ایم ایل-این، پی پی پی اور پی ٹی آئی—تاریخی حریف ہونے کے باوجود—یہ تمام جماعتیں قانون میں ترمیم کے لیے متحد ہو گئیں۔

برطانوی سامراج نے سیکشن 505 سنہ 1860 میں برصغیر میں نافذ کیا تھا۔ اسی لیے اسے انڈین پینل کوڈ 1860 کہا جاتا ہے۔ جب یہ سیکشن نافذ کیا گیا تو لارڈ کننگ برصغیر کے وائسرائے تھے۔ یہ سیکشن 1857 کی جنگ آزادی کے تین سال بعد نافذ کیا گیا تھا۔ اس قانون کا مقصد ہی اظہار رائے اور مخالفین کو دبانا تھا تاکہ انگریز حکمران برصغیر پر اپنا کنٹرول مزیدستحکم کر سکے۔
برطانوی حکمرانی کے دوران برصغیر میں کئی مواقع ایسے آئے جب سیکشن 505 کو اظہار رائے اور سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ لیکن برطانوی سامراج نے اس قانون میں ایسی کوئی شق نہیں رکھی تھی جس سے حکمرانوں پر تنقید کرنا جرم ہو۔

آزادی اظہار رائے پر اثرات

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس خطے میں احتساب، شفافیت، معلومات تک رسائی کے فقدان اور بری حکمرانی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، جس سے بچنے کے لیے اس سیاسی اشرافیہ نے برطانوی سامراج کے قانون میں تبدیلی کی تاکہ صحافیوں، ناقدین اور اختلاف رائے رکھنے والوں کا گلا گھونٹ دیا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ بہت خطرناک قانون ہے۔ انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس خطے میں معلومات تک رسائی نہیں ہے، اور اگر کوئی صحافی کسی ذرائع کے حوالے سے خبر دے گا، تو ایسی صورت میں اگر حکومت اس کے خلاف کوئی کارروائی کرے تو اس کے لیے یہ ثابت کرنا مشکل ہوگا کہ اس کی خبر درست ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترمیم عوامی بحث و مباحثے کو خطرے میں ڈالے گی کیونکہ یہ جائز تنقید کیلئے سخت سزاؤں کی راہ ہموار کرتی ہے، جس سے شہریوں میں خود سینسرشپ کا ماحول پیدا ہوگا۔ تنقید کو جرم قرار دینا عوامی بحث کیلئے بھی بڑا خطرہ ہے کہ اس سے ان افراد کے خلاف قانونی کارروائیاں کی جا سکتی ہیں جو حکومت کے اقدامات پر تنقید کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ نیا قانون ایسے ماحول کو فروغ دے گا جہاں ہر طبقہ فخر حکومت کے اقدامات پر اپنی رائے دینے میں خود کو روک سکتے ہیں جس سے جمہوری روایات کو شدید نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم حکومت کے عوامی بحث و مباحثے پر کنٹرول کو بڑھائے گی، کیونکہ اس کا تعین حکومت کرے گی کہ کون سی باتیں نقصان دہ سمجھی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے حکومت کو کھلی چھوٹ ملے گی کہ وہ تنقید کو سماجی اتحاد و اتفاق کے لیے خطرہ قرار دے۔

تشویش کم کرنے کی کوشش

لیکن حکومت نے مختلف طبقہ فکر کے لوگوں اور صحافیوں میں پائے جانے والے تشویش کو کم کرنے کی کوشش کی۔وزیراطلاعات پیر مظہر سید نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس قانون کے تحت حکمرانوں یا سرکاری اداروں پر تنقید کرنے پر پابندی نہیں ہے بلکہ حکومت کے خلاف اکسانے پر پابندی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کے مطابق حکومت یا معاشرے کے خلاف اکسانا یا انتشار پھیلانا منع ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس میں یہ موقع بھی دیا گیا ہے کہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی نیت اکسانے کی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ صدر ، وزیر اعظم اور سرکاری محکمے کمیونٹی کا حصہ ہیں اور اگر ان کے خلاف لوگوں کو اکسانا جائے گا تو قانون حرکت میں آئے گا۔ انہوں نے یہ بات واضح کی کہ اس قانون کا غلط استعمال نہیں ہوگا۔

لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کمیونیٹی کے دائرے کو حکومت کے اداروں تک بڑھانا حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ سمجھے اور وہ اختللاف رائے رکھنے والی آوازوں کو حکومت کے خلاف نفرت قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش کے پیچھے سیاست دانوں کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کا نتیجہ ہے۔

Scroll to Top