احتساب بیورو آزادکشمیر نے 24ایمبولینسز ضبط کیوں کیں ؟حکومت نے انہیں اب تک واگزار کیوں نہیں کروایا؟؟ ہوشرباء انکشاف سامنے آگئے

مظفرآباد(ذوالفقار علی،کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم )آزاد کشمیر کے محکمہ صحت کی جانب سے خریدی گئی ایمبولینسز سے متعلق احتساب بیورو کی تحقیقات نے ایسا رخ اختیار کرلیا جس سے یہ اندیشہ بڑھ گیا ہے کہ یہ گاڑیاں استعمال میں آنے سے پہلے ہی ناکارہ ہو جائیں گی اور یوں قومی خزانے کو کم از کم 40 کروڑ روپے کے نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔حکومت ان ایمبولینسز کو واگزار کروا کر ہسپتالوں میں تقسیم کرنے کے بعد اس معاملے کی انکوائری کرواکر ملوث ذمہ داروں کا تعین کرسکتی ہے مگر تاحال حکومت کسی قسم کی ذمہ داری اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہے ۔

2023 میں آزاد کشمیر کی حکومت نے آزاد موٹرز کو 2023 ماڈل کی 24 ایمبولیسزکیلئے 38 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم ادا کی تھی لیکن جو ایمبولیسز آزاد کشمیر کے محکمہ صحت کو ملیں وہ 2022 ماڈل کی تھیں جس کے نتیجے میں حکومت کو 14 کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا تھا۔

یہ ایمبولیسز جولائی 2023 سے اسلام آباد میں آزاد کشمیر کے محکمہ صحت کے گودام میں کھڑی ہیں۔آزاد کشمیر کے احتساب بیورو کے تفتیشی افسر شجاع گیلانی نے انکشاف کیا کہ انہوں نے محکمہ صحت کی گودام میں کھڑی 24 ایمبولینسز کو تحقیقات کیلئے ضبط کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں قانونی طور پر یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تفتیش کے دوران ایسے اقدامات کریں۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ آیا ان ایمبولیسز کو تکنیکی معائنے کے لیے ضبط کیا گیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ معائنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ تمام متعلقہ دستاویزات ان کے پاس موجود ہیں۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ ایمبولینسز ضبط کیوں کی گئیں، تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت چاہے تو عدالت کے ذریعے ان ایمبولینسز کو واگزار کرا سکتی ہے۔ لیکن احتساب بیورو کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان ایمبولیسز کو واگزار کرانے کیلئے ابھی تک احتساب بیورو سے رجوع نہیں کیا۔ تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ ان کا کام تحقیقات مکمل کرنا ہے اور وہ کوئی کارروائی نہیں کرسکتے ہیں۔

احتساب بیورو کے چیف پراسیکیوٹر محمد حنیف چوہدری کا کہنا ہےکہ فتیش مکمل ہونے اور ادارے کے چیرمین کی تعناتی کے بعد ہی اس بابت عدالتی کارروائی شروع ہوگی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگست 2023 میں ان ایمبولنسیز کے حتمی معائنہ کے دوران انکشاف ہوا کہ یہ ایمبولینسیس 2023 کی نہیں بلکہ 2022 کی ہیں۔اس دوران آزاد موٹرز نے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو پیشکش کی تھی کہ وہ ان 2022 ماڈل کی ایمبولنس کو تبدیل کرکے 2023 ماڈل کی ایمبولینسیس دینے کیلئے تیار تھے جن کا معائنہ نومبر دسمبر میں معائنہ کروایا اس کے بعد محکمہ صحت نے اس وقت حکومت کو خط لکھا کہ وہ ان کو اجازت دیں کہ وہ 2022 ماڈل کی جگہ 2023ماڈل کی ایمبولینسیس آزادموٹر سے حاصل کریں۔ لیکن حکومت نے اس خط کا جواب دینے کے بجائے اگست 2024 میں یہ کیس احتساب بیورو میں بھیج دیااس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت آزادکشمیر کی دلچسپی نہیں ہے کہ یہ ایمبولنسیس عوام کے کام آسکیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگست 2023 محکمہ صحت کے گودام میں ان ایمبولیسز کے حتمی معائنے کے دوران یہ معلوم ہوا تھا کہ یہ 2023 ماڈل کی ایمبولیسز نہیں بلکہ 2022 ماڈل کی ہیں۔ اس موقع پر محکمۂ صحت نے آزاد موٹرز سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ فراہم کی گئی گاڑیاں واپس لے کر ان کی جگہ 2023 ماڈل کی گاڑیاں فراہم کرےجس پر کمپنی نے آمادگی ظاہر کر دی تھی۔ ذرائع کے مطابق نومبر اور دسمبر 2023 کے دوران خریداری سے متعلق محکمۂ صحت کی کمیٹی نے میرپور میں موجود 2023 ماڈل کی گاڑیوں کا معائنہ بھی کیا جس کے بعد محکمہ صحت نے حکومت کو ایک باضابطہ خط لکھا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ ؐ محکمے کو اجازت دی جائے کہ وہ کمپنی کو 2022 ماڈل کی گاڑیاں واپس کر کے 2023 ماڈل کی گاڑیاں حاصل کرے۔ تاہم حکومت نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا اور اگست 2024 میں ازاد موٹرز کے خلاف احتساب بیورو میں ریفرنس بھیجا۔
واضح رہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت نے اگست 2024 میں میں آزاد موٹرز کے خلاف احتساب بیورو کو ریفرنس بیجھا تھا ۔لیکن اس ریفرنس میں کسی افسر کا نام شامل نہیں کیا گیا تھا۔

احتساب بیورو کے چیف پراسیکیوٹر نے کہا کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوشن کے مرحلے میں یہ دیکھا جائے گا کہ افسران کا کیا کردار رہا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ اسی صورت میں ہوگا جب احتساب بیورو کے چیرمین تعنات ہوں گے۔

لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فی الحال احتساب بیورو کے نئے چیئرمین کی تعیناتی کے کوئی امکانات نہیں اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ جب تک سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل نہیں ہوتا اسوقت تک نیا چیئرمین تعینات نہیں ہوسکتا ہے۔

رواں سال جنوری میں آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ آزاد نے حکومت کو ہدایت کی تھی چیئرمین کی تقرری سے متعلق قوانین میں ترمیم کی جائے تاکہ ایک غیرجانبدار، سیاسی اثر و رسوخ سے پاک طریقۂ کار وضع کیا جا سکے۔

عدالت نے سفارش کی تھی کہ چیئرمین کی تقرری وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے کی جائے۔عدالت نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ امیدوار کیلئے معیارِ اہلیت میں صرف تعلیمی قابلیت نہیں بلکہ دیانت، پیشہ ورانہ اہلیت اور قانون کی مناسب سمجھ بوجھ بھی شامل کی جائے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ہدایات کو تین ماہ گذر گئے لیکن ابھی تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کا کوئی فوری امکان ہے۔ ایک اہم سرکاری عہدیدار نے کہا کہ

اگر حکومت ان ایمبولیسز کو احتساب بیورو سے واگزار کرانے میں تاخیر کرتی ہے اور یہ ایمبولیسز اس وقت تک احتساب بیورو کی تحویل میں ہی رہتی ہیں جب تک نیا چیئرمین تعینات نہیں ہوتا ہے تو اندیشہ ہے کہ وہ قابل استعمال نہ رہیں اور 40 کروڑ روپے کے نقصان کا خدشاہ ہے

واضح رہے کہ یہ ایمبولینسیں پاکستان کی جانب سے دی جانے والی اس سالانہ گرانٹ سے خریدی گئی تھیں جو انفراسٹریکچر ڈیویلپمنٹ کیلئے دی گئی تھیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت نے نہ صرف اس گرانٹ کا غلط استعمال کیا، بلکہ عوامی ضروریات، خصوصاً صحت جیسے اہم شعبے کو بھی نظرانداز کیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صحت عوام کا بنیادی حق ہے اور جب گرانٹ سے خریدی گئی ایمبولیسز عوام تک نہ پہنچ پائیں اور ناکارہ ہوجائیں تو یہ صرف وسائل کا زیاں نہیں بلکہ انسانی جانوں پر براہ راست حملہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 20 ماہ گذر جانے کے بعد بھی کسی پر بھی ذمہ داری عائد نہ ہونا حکومت کی ناکامی ہے۔
ریڈ فاؤنڈیشن ہٹیاں بالا میں روبوٹکس کی پہلی نمائش ،طلبہ کے جدید پراجیکٹس نے شرکاء کو حیران کر دیا

Scroll to Top