حوصلہ یہ نہیں دیکھتا کہ دیوار کتنی پتھریلی ہے : مزدوری، تعلیم اور کامیابی کی کہانی

خواب وہ نہیں جو رات کو سونے کے بعد آئیں بلکہ خواب وہ ہوتے ہیں جو سونے نہ دیں۔ محمد زاہد اعوان کی کہانی ایسی ہی ایک جدوجہد کا عکس ہے جہاں وسائل کی کمی، مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود انہوں نے نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کی بلکہ ایک کامیاب لیکچرر اور بہترین مقرر کے طور پر اپنی شناخت بھی بنائی۔

محمد زاہد اعوان اپنے خاندان کے واحد فرد ہیں جنہوں نے گریجویشن مکمل کی اور آج ایک نجی ادارے میں لیکچرر کے ساتھ ساتھ کشمیر انٹیلیکچوئل فورم کے جنرل سیکرٹری کے طور پر نوجوانوں کی فکری اور تخلیقی تربیت میں مصروف ہیں۔

محمد زاہد اعوان کا تعلیمی سفر آسان نہ تھا۔ “میرے والد مستری تھے، اور ہمارے خاندان میں تعلیم کا رجحان زیادہ نہیں تھا۔ میرے بڑے بھائی ایف اے پاس تھے اور انہیں بہت پڑھا لکھا سمجھا جاتا تھا۔ یونیورسٹی کی تعلیم کا کوئی تصور نہیں تھا، لیکن میرے اندر لگن تھی، کچھ کر دکھانے کی جستجو تھی۔”

انہوں نے میٹرک اپنے گاؤں سے مکمل کیا، مگر نتیجہ آنے سے پہلے ہی اسلام آباد چلے گئے۔ “وہاں دو مہینے مزدوری کی، ہوٹل میں برتن دھوئے، اور اسی کمائی سے گورنمنٹ ماڈل سائنس کالج میں فرسٹ ایئر کی فیس جمع کروائی۔”

اعلیٰ تعلیم کے دوران بھی مالی مشکلات کا سامنا رہا، لیکن انہوں نے پیچھے ہٹنے کے بجائے مزید محنت کی۔ “یونیورسٹی کی دو ماہ کی چھٹیوں میں مزدوری کرتا تھا تاکہ سالانہ فیس ادا کر سکوں۔ ماہانہ فیس تو کسی نہ کسی طرح ہو جاتی تھی، مگر سالانہ فیس کے لیے اضافی محنت ضروری تھی۔ خاندان نے بھی سپورٹ کیا، لیکن زیادہ تر اپنے بل بوتے پر ہی سب کچھ کرنا پڑا۔”

زاہد اعوان کو تقریر کا شوق بچپن سے تھا، مگر عملی طور پر اس سفر کا آغاز 2017 میں ہوا۔ “میں نے پہلی تقریر پریپ میں کی تھی، اور ہمیشہ بولنے کا شوق تھا۔ 2017 میں پہلا تقریری مقابلہ لڑا، پھر اساتذہ سے تربیت حاصل کی، اور بڑے بڑے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا۔”

ان کی محنت رنگ لائی اور انہیں کئی تقریری مقابلوں میں کامیابی ملی۔ ان کے لیے سب سے بڑا تجربہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی (GCUL) لاہور میں ہونے والا تقریری مقابلہ تھا، جہاں کے ڈسپلن اور طلبہ کی گرومنگ نے ان پر گہرا اثر چھوڑا۔

اسی تجربے نے انہیں کشمیر انٹیلیکچوئل فورم کے قیام کی ترغیب دی۔ “جب میں نے GCUL لاہور میں ڈسپلن اور وہاں کے طلبہ کی گرومنگ دیکھی تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ ہمیں بھی ایسا ایک فورم بنانا چاہیے، جہاں نوجوانوں کو ٹریننگ دی جائے، تاکہ وہ مثبت سوچ اپنا سکیں اور اپنی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں نکھار سکیں۔”

یہ بھی پڑھیں: لیورپول اسکواش چیمپئن شپ: پاکستان کے نور زمان کی شاندار فتح

دو سال پہلے قائم کیے گئے اس فورم کا مقصد نوجوانوں کو علمی، فکری اور ادبی میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ اپنے اندر وہی ڈسپلن اور گرومنگ لا سکیں جو کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

محمد زاہد اعوان کا ماننا ہے کہ انسان کو خدا کی دی ہوئی صلاحیتوں کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ “جو کچھ حاصل کیا، وہ اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں کی بدولت ممکن ہوا۔ اگر سچی نیت اور مستقل مزاجی ہو تو کوئی بھی رکاوٹ منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔”

ان کی کہانی ان تمام نوجوانوں کے لیے ایک روشن مثال ہے جو مشکلات کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ حوصلہ یہ نہیں دیکھتا کہ دیوار کتنی پتھریلی ہے بلکہ یہ راستے خود تلاش کرتا ہے۔ محمد زاہد اعوان نے نہ صرف اپنی زندگی بدلی بلکہ دوسروں کے لیے بھی کامیابی کے دروازے کھولنے کا عزم کر رکھا ہے۔

Scroll to Top