آزادکشمیر کی سیاسی جماعتیں اقتدار کے پوز میں رہ کر چھلانگ لگاتی ہیں اس نظام سے نوجوان نسل تنگ آچکی ہے، سابق چیف جسٹس منظور الحسن گیلانی
مسلم کانفرنس ، پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ نواز غیرجماعتی شخص کے تابع کام کرنے پر مجبورہیں، ،منظور الحسن گیلانی
مسلم کانفرنس 1947 کے نعرے پر چل رہی ہے جو آج کی نسل کے سامنے غیر فعال ہوچکے ہیں ،سابق چیف جسٹس
مظفرآباد(کشمیر ڈیجیٹل )عوامی ایکشن کمیٹی نے ڈلیور کیا جبکہ سیاسی جماعتیں بیٹھ کر تماشہ دیکھتی رہیں۔موجودہ صورتحال میں سیاسی جماعتیں ناکام ہو چکی ہیں اگر عوامی ایکشن کمیٹی ایک سیاسی جماعت کا روپ دھار لے تو ممکن ہے وہ بہتر لیڈ کرے۔ سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر سید منظور الحسن گیلانی نے ان خیالات کا اظہار کشمیر ڈیجیٹل کے پروگرام میں سید عارف بہار سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
سابق چیف جسٹس آزادکشمیر سید منظور الحسن گیلانی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس جذبے سے کشمیری عوام نے قربانیاں دے کر اس خطے کو آزاد کیا وہ جذبہ آج کم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان بننے کے ساتھ ہی آزادکشمیر کا خطہ آزاد کروا کر پاکستان میں شامل ہونے کا خواب دیکھا گیا تھا مگر کچھ سیاسی اور عالمی مجبوریوں کی وجہ سے پاکستان کو آزادکشمیر جیسے تھا کی بنیاد پر رکھنا پڑا کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں یہ خطہ ایک متنازعہ ہے ۔
سید منظور الحسن گیلانی نے دوران گفتگو کہا کہ حکمرانوں نے وقت کیساتھ کوئی پالیسیاں تشکیل نہیں دیں، جوں جوں وقت میں تغیر وتبدل آتا ہے انسان بھی بدل جاتے ہیں بلکہ پوری دنیا بدل چکی ہے لیکن ہم وہیں کھڑے ہیں ۔ مقصد ایک ہی ہو لیکن وقت کیساتھ تغیروتبدل کیلئے تیار رہنا چاہیے تھا مگر اس میں ہمارا سسٹم ناکام ہوچکا ہے۔
سید منظور الحسن گیلانی کا کہنا تھا کہ نئی نسل اس سسٹم سے بیزار ہے ، آج میرا آٹھ یا نو سال کا بچہ جو جانتا ہے وہ میں نہیں جانتا ۔ اس بچے کی دنیا بالکل اوپن اورآزاد ہے ، وہ اس سسٹم سے بغاوت رکھتا ہے وہ اس کو کسی صورت قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ کشمیر کی متنازعہ حیثیت برقرار رکھتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے تھا ۔ ہم اس سے بہتر نظام بھی تشکیل دے سکتے تھے لیکن ہم اپنی نئی دنیا پیدا کرنے میں ناکام رہے ۔
سید منظور الحسن گیلانی کا کہنا تھا کہ آزادکشمیر کو پاکستان کے تمام اداروں میں بہترین نمائندگی ضرور حاصل ہے مگر جہاں قانون سازی ہوتی ہے جہاں عوامی نمائندگی کا حق ہے وہاں آزادکشمیر کے حقوق کو سلب کیا گیا ہے جو مسئلہ کشمیر سمیت مختلف عوامی مسائل کے حل کیلئے انتہائی ناموافق ہے ۔ استحکام کے دوران آئین ضروری ہے لیکن جب حالات موافق نہ ہوں تو آئین غیر ضروری ہوجاتا ہے اور نظریہ ضرورت جنم لیتا ہے۔
سید منظور الحسن گیلانی کا کہنا تھا کہ آزادکشمیر میں عوامی تحریک نے عوامی حقوق کیلئے جس طرح حکمرانوںکو مجبور کیا عوامی ایکشن کمیٹی نے ڈلیور کیا ۔اور جس منظم طریقے سے تحریک چلائی کہ ہر شخص عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ تھا ۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک میں تمام سیاسی جماعتیں چاہیے اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں ، چھوٹی ہو ں یا بڑی بیٹھ کر تماشا دیکھتی رہیں۔ ان کا عوامی مسائل حل میں کوئی کردار نہیں رہا ۔
وہ یہ دیکھتے رہے کہ جو بڑا جلوس ہوگا ہم اس میں چھلانگ لگا کر پار ہوجائیں گے ۔اس وقت یہ سیاسی جماعتیں راستے سے بھٹک گئیں۔اور عوامی تحریک نے ان کی جگہ لے لی۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کس پوز میں رہ کر اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں۔یہ سیاستدان قوم کی ڈائریکشن مقررنہیں کرسکتے کیونکہ قوم کی ڈائریکشن مقررکرنے کیلئے رسک لینا پڑتا ہے لیکن اقتدار کا حصول جن کا مشن ہو وہ قوم کو تقسیم تو کرسکتے ہیں ڈائریکشن مقرر نہیں کرسکتے ۔
سید منظور الحسن گیلانی کا کہنا تھا کہ قائد اعظم کو بھی وہ پاکستان نہیں مل سکا جس کیلئے قائد اعظم نے اتنی قربانی دی تھی ۔مہاتما گاندھی بھی تقسیم ہندوستان کیخلاف خلاف تھے مگر انہیں زمینی حقائق کو ماننا پڑا۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے بہت سی چیزوں کو منوالیا جس پر میرے بہت ساری چیزوں سے اختلافات رکھتا ہوں۔۔ لیکن پھر اس کے علاوہ عوام کے پاس کوئی چارہ بھی تونہیں کہ انہیں جائز کام کیلئے بھی احتجاج کیلئے نکلنا پڑے ۔
سید منظور الحسن گیلانی نے کہا کہ اس وقت موجودہ حکومت جس طرز پر چل رہی ہے نہ یہ جمہوری ہے نہ یہ عوامی ہے ۔ خواہ کے وزیراعظم کام اچھا کررہے ہیں لیکن اس حکومت کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ، یہ تمام جماعتوں کا ایک مجموعہ ہے کسی ایک جماعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ ساری جماعتیں وزیراعظم کیساتھ ہیں لیکن وزیراعظم کسی جماعت کیساتھ نہیں اورنہی ہی وزیراعظم انوارالحق کی کوئی سیاسی جماعت ہے ۔
مسلم کانفرنس ، پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ نواز جیسی بڑی جماعتیں ایک غیرجماعتی شخص کے تابع کام کرنے پر مجبور ہیں باہر آکر سبھی کہتے ہیں کہ ہم اس کو چھوڑ دیں گے اور یہ غلط کام کررہا ہے ہم اس کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اگر وزیراعظم انوارالحق ٹھیک نہیں کررہا تو اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے اور اگر ٹھیک کررہا ہے تو پھر آپ کیسے چھوڑ سکتے ہیں یا تو یہ جماعتیں اقتدار کو طول دے رہی ہیں اور باہر آکر عوام کے سامنے ویسے ہی شور شرابا ڈال رہی ہیں۔ یا پھر وہ کام ٹھیک کررہا ہے ۔
سید منظور الحسن گیلانی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آزادکشمیر میں لیڈر شپ کا فقدان ہے ، موجودہ صورتحال میں تمام سیاسی جماعتیں ڈیلیور کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ جس نے ڈیلیور کیا وہ عوامی ایکشن کمیٹی ہے ۔
اگر یہ سیاسی جماعت کا روپ دھار لے تو ہوسکتا ہے کہ ان میں قائدانہ صلاحیتیں موجود ہوں اور ریاست کا بہتر انتظام چلاسکیں۔ مسلم کانفرنس 1947 کا جو نعرہ لے کر بیٹھی ہوئی ہے تو وہ نعرےاور باتیں آج غیر فعال ہوچکی ہیں۔اسی طرح مسلم لیگ ن کو بھی وقت کے تقاضوں کیساتھ اپنے آپ کو بدلنا ہوگا اور وقت کیساتھ چلنا ہوگا ورنہ یہ تمام سیاسی جماعتیں غیرفعال ہوجائیں گی