مظفرآ باد ( کشمیر انوسٹی گیشن ٹیمذوالفقار علی، شہازیب افضل ، شجاعت میر) آزاد کشمیر کو حال ہی میں پہلی بار گرین کلائیمیٹ فنڈنگ تک رسائی حاصل ہوئی ہے، مگر اس فنڈنگ سے آنے سے پہلے ہی اس علاقے کی صورتحال پہلے ہی بگڑ چکی ہے۔ یہ ابھی تک غیر یقینی ہے کہ اس فنڈنگ کو حقیقت میں تبدیل ہونے میں کتنا وقت لگے گاجبکہ ماحولیاتی بحران پہلے ہی بڑھ رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات واضح ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آزاد کشمیر کے گلیشیرز، جو صرف نیلم وادی میں پائے جاتے ہیں، گزشتہ دو دہائیوں میں ایک تشویشناک رفتار سے پگھلی رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ گلیشیرز کے پگھلنے کی اصل وجہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، جنگلات کی کٹائی، عالمی حدت، موسمیاتی تبدیلیاں اور انسانی سرگرمیاں ہیں۔
برف سے ڈھکے پہاڑوں، چراگاہوں، جھیلوں اور دریاؤں کے باعث مشہور وادی نیلم کو ان غیر معمولی ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق اس کے گلیشیرز کا تیزی سے پگھلنا مقامی ماحولیاتی نظام، آبی وسائل اور زراعت پر دور رس اثرات مرتب کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقامی لوگ کی طرف سے ایندھن کے لیے جنگل کی کٹائی اور لکڑی کی اسمگلنگ اس مسئلے میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔
کلائیمیٹ چینج ادارہ برائے تحفظ ماحولیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سردار محمد رفیق خان کی تحقیقاتی مقالے کے مظابق سنہ 2000 میں گلیشیئرز کا کل رقبہ 15,110 ہییکٹرز تھا جو 2010 تک کم ہو کر 13,520 ہییکٹرز رہ گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دس سالوں میں 1,590 ہییکٹرز کی کمی ہوئی یوں ہر سال 159 ہییکٹرز پگھل رہے تھے۔
“آزاد جموں و کشمیر، کشمیر ہمالیہ کے آبی وسائل پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات” کی عنوان سے ڈاکٹر رفیق کا یہ مقالہ “جرنل آف ارتھ سائنس اینڈ کلائمیٹک چینج” میں آٹھویں بین الاقوامی کانفرنس برائے ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی کے لیے شائع ہوا تھا۔ اس مقالے میں کہا گیا ہے کہ 2010 سے 2017 تک گلیشیئرز کا رقبہ 11,350 ہییکٹر ز تک رہ گئے ۔
اس طرح سات سالوں میں 2,170 ہییکٹرز گلیشئیرز پگھل گیے یعنی سالانہ 309 ہییکٹرز پگھلے۔ اس طرح 2000 سے 2017 کے درمیان گلیشیئرز کا رقبہ تقریباً 24.9 فیصد کم ہو چکا ہے اور 2000 سے 2017 تک ہر سال اوسطاً 220 ہییکٹرز کا نقصان ہوا ہے۔ اگرچہ 2017 کے بعد ان گلیشئیرز کے بارے مین کوئی مطالعہ نہیں ہوا مگر یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں مزید تیزی آئی ہوگی۔
اگر گلیشیئرز 2017 کے بعد ہر سال 309 ہییکٹرز کی رفتار سے پگھلتے رہے ہوں تو 2024 تک تقریباً 5,923 ہییکٹر ز گلیشئیرز پگھل چکے ہوں گے تک جس کا مطلب 39.2 فیصد گلیشئیرز پگھل چکے ہوں گے۔اگر یہ رفتار جاری رہی تو گلیشیئرز تقریباً 30 سال میں مکمل طور پر غائب ہو سکتے ہیں، یعنی 2054 تک۔ لیکن اصل صورت حال ایک جامع مطالے کی بات ہی سامنے آئے گی۔
علاقے میں گلیشیئر زپگھلنے کے اثرات
گلیشیئر جھیلیں: گلیشیئر جھیل کے پھٹنے سے سیلاب کا بڑھتا ہوا خطرہ
ڈاکٹر رفیق خان کا کہنا ہے کہ “جب گلیشیئر پگھلتے ہیں، تو گلیشیئر جھیلیں بنتی ہیں، جو تباہ کن جی ایل او ایف کا باعث بن سکتی ہیں،” وہ وضاحت کرتے کہ وادی نیلم میں لندہ ناڑ، شونٹر جھیل زیاہ تشویش کا باعث ہے۔ یہ جھیل ایک گلیشیئر کے نیچے واقع ہے۔ماحولیات کی ماہر ڈاکٹر رفیق کا کہنا ہے “اگر اس گلیشیئر کی موٹائی مستقبل قریب میں کم ہو جاتی ہے اور اس میں دراڑیں آتی ہیں، تو یہ جھیل میں گر سکتی ہے، جس سے ایک سیلاب آسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لندہ نار سے اوپر شونٹر نالہ کے قریب رہنے والے 5,000 سے 6,000 افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
” “آزاد جموں و کشمیر کے گلیشیئر وسائل کی مانیٹرنگ اور تخمینہ” کے عنوان سے شائع ہونے والےمطالعے میں کہا گیا ہے کہ وادی نیلم میں 224 گلیشئیرز موجود ہیں۔ یہ مطالعہ ۔جنوری 2012 میں پاکستان جرنل آف میٹیورولوجی میں شائع ہوا تھا اور مطالعے میں ریمورٹ سینسنگ اور جی آئی ایس ٹیکنیکس کا استعمالکیا گیا تھا۔ اس مطالعے کے مطابق وادی نیلم میں گلیشیئرز تقریباً 4.9 مکعب کلومیٹر برف کے ذخائر پر مشتمل ہیں اور علاقے کے گلیشیئر ماحولیاتی نظام کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مزید برآں، مطالعے نے 76 گلیشیئر جھیلوں کی نشاندہی کی، جو تقریباً 545 ہییکٹر پر پھیلی ہوئی تھیں۔ ان جھیلوں میں سے 40 جھیلیں 2 ہییکٹرز سے بڑی پائی گئیں۔
کٹاؤ سی بنی جھیلین گلیشئیرز پگھلنے کا ثبوت
اس مطالعے میں کہا گیا ہے کہ گلیشئیر جھلین چھ اقسام میں تقسیم کی گئی ہیں جن میں سے 53 فیصد ایروژن ( کٹاؤ کی وجہ سی بنی جھیلیں) قسم کی جھیلوں کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہیں۔ مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ایروژن قسم کی جھیلوں کی موجودگی گلیشیئرز کی پگھلنے کا واضع ثبوت ہے اور یہ ممکنہ طور پر عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہی ہیں۔
شدید موسمی پیٹرنز اور درجہ حرارت میں اضافہ
پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی علاقے میں دیگر سخت موسمی حالات میں بھی اضافہ کررہی ہیں۔ ڈاکٹر رفیق خان کا کہنا ہے کہ وادی نیلم وادی اور لیپا وادی میں 2019 کے بعد بادل پھٹنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور 2019 سے اب تک کم از کم چھ ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں، جن کے نتیجے میں جان و مال کا کافی نقصان ہوا اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے خطرات میں مزید اضافہ ہوا۔
ڈاکٹر خان کہتے ہیں کہ پچھلے پچاس سالوں میں آزاد کشمیر میں اوسط درجہ حرارت میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جو 2°C ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس دوران درجہ حرارت میں 02 سنٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے اور خبردار کیا کہ اس صدی کے آخر تک مزید 03 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر خان مزید کہتے ہیں کہ اس طرح کا اضافہ انسانی صحت، حیاتیاتی تنوع، اور آبی وسائل پر سنگین اثرات مرتب کر سکتا ہے—جو علاقے کی بقاء کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
موسمی پیٹرنز میں خلل
کلائیمیٹ چینج ادارہ برائے تحفظ ماحولیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سردار محمد رفیق خان کے مطابق علاقے کے موسمی پیٹرنز میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ سردیوں میں برفباری اور بارشیں دونوں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ روایتی طور پر، برفباری نومبر اور دسمبر کے ابتدائی مہینوں میں ہوتی تھی، لیکن اب یہ فروری، مارچ اور حتیٰ کہ جون میں ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ڈاکٹر خان کے کہنا ہے “برفباری کا وقت متاثر ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں غیر متوقع طور پر بھاری برفباری ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر 2021 اور 2023 میں وادی نیلم میں جون میں بڑی برفباری ہوئی، اور پہاڑوں پر 3 سے 4 فٹ تک برف جمع ہو گئی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ برفباری کے وقت میں یہ خلل، ساتھ ہی بارش میں کمی، نے زیر زمین پانی کی سطح ، زراعت اور مجموعی موسمی پیٹرنز پر زبردست اثرات ڈالے ہیں۔ ڈاکٹر خان نے کہا کہ یہ تبدیلیاں مقامی ماحولیاتی نظام، زرعی پیداوار اور روزگار کو متاثر کر رہی ہیں۔ برفباری اور بارشین کم ہورہی ہیں اور خشک موسم کا دورانیہ بڑھا ہے۔
ڈاکٹر خان کے مطابق برفباری اور برشوں کے پیٹرنز میں یہ تبدیلیاں گلیشیئرز کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نومبر اور دسمبر کے ابتدائی مہینوں میں ہونے والی برفباری عام طور پر زیادہ دیر تک رہتی ہے، جس سے گلیشیئرز کو تحفظ ملتا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح برقرار رہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برفباری میں تاخیر کی وجہ سے برف زمین کے گرم ہونے کی وجہ سے جلدی پگھل جاتی ہےجس سے گلیشیئرز کو سنگین نقصان پہنچتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برف کا تیزی سے پگھل جانا گرمیوں میں گلیشیئرز کے پانی کے بہاؤ کو تیز کرتا ہے، جس سے صورتحال مزید بگڑتی ہے۔
موسمی پیٹرنز میں تبدیلی
ڈاکٹر سردار محمد رفیق خان نے کہا کہ پچھلے 60 سالوں میں آزاد کشمیر میں موسمی پیٹرنز میں ایک اہم تبدیلی آئی ہے۔ موسم گرما میں 45 دنوں کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ پاکستان بھر میں یہ اضافہ 30 دن کا ہے۔ اس کے برعکس، ڈاکٹر خان وضاحت کرتے ہیں کہ سردی، خزاں اور بہار کے دورانیے میں کمی آئی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا فصلوں پر اثر
وادی نیلم میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی آزاد کشمیر میں زراعت پر براہ راست اثر ڈال رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وادی نیلم میں شونٹر اور گریز میں غیر متوقع برفباری سے فصلیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق، بڑے آلو کو ، جو عام طور پر دو کلو تک وزنی ہوتے ہیں، سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے اور وہ جون 2021 اور 2023 کی برفباری سے خراب ہو گئے تھے۔ مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ فصلیں جو عام طور پر خزاں میں کاٹی جاتی ہیں اور سردیوں کے استعمال کے لیے خشک کرکےمحفوظ کی جاتی ہیں وہ بھی موسم گرما کی برفباری کی وجہ سے تباہ ہو گئیں تھیں۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ مویشیوں کے چارے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وہ مکئی اگاتے ہیں جسے وہ خشک کر کے سردیوں میں چارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تاہم، مقامی افراد کا کہنا ہے کہ برفباری کی وجہ سے مکئی کی فصل بھی تباہ ہوگئی تھی جس سے ان کے لیے مویشیوں کے چارے کا انتظام کرنا مشکل ہوگیا تھا۔
پانی کی کمی
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی آزاد کشمیر میں پانی کی کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ روایتی چشمے، جو کبھی تازہ پانی کا اہم ذریعہ تھے، تیزی سے خشک ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں پانی کے ذرائع مزید غیر مستحکم ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی آبادی کے لئے بحران میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے کیوں کہ پینے کے پانی اور بعض اوقات آبپاشی کے لیے ان پر انحصار کرتے ہیں۔
ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ گلیشیئرز کے پگھلنے اور چشموں کے خشک ہونے کے مجموعی اثرات علاقے کی آبی تحفظ کو شدید متاثر کریں گے۔
موسمیاتی تبدیلی کے اشارے کے طور پر جنگلی سور
ماہرین کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر مین جنگلی سوروں کی موجودگی بھی موسمی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہین۔ ان کا کہنا ہے کہیہ جانور عموماً نئے علاقوں میں خوراک اور رہائش کی تلاش میں ہجرت کرتے ہیں، جو ماحولیاتی تبدیلیوں کی علامات ہیں
آزاد کشمیر بھر کے مستحقین زکوٰۃ کو رقوم کی فراہمی کر دی گئی