ذوالفقار علی /کشمیر انویسٹی گیشن ٹیم
کوئی چھ ماہ قبل گرین کلائمیٹ فنڈ (جی سی ایف) کے منصوبوں میں شامل کیے جانے کے باوجود آزاد کشمیر کی حکومت تاحال کوئی منصوبہ جمع نہیں کرا سکی ہے جس کی وجہ سے یہ اندیشہ بڑھ رہا ہے کہ ماحولیاتی بحران کی لپیٹ میں یہ خطہ جی سی ایف کی مالی مدد یا فنڈنگ سے محروم رہ سکتا ہے۔
پاکستان کی وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی رابطہ کاری نے رواں سال 11 فروری 2025 کو آزاد کشمیر کے حکام کو مطلع کیا تھا کہ وہ ایک کروڑ ڈالر مالیت تک کے منصوبہ یا تجویز جی سی ایف میں جمع کرا سکتے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ آزاد کشمیر کو جی سی ایف سے فنڈنگ حاصل کرنے کا موقع دیا گیاتھا۔
گرین کلائمیٹ فنڈ (جی سی ایف) دنیا کا سب سے بڑا مخصوص مالیاتی فنڈ ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے قائم کیا گیاہے۔
یہ فنڈ 2010 میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن کے تحت قائم ہوا تاکہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے میں مدد دی جا سکے۔
اسلام آباد میں مقیم آزاد کشمیر کی سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے لاتعلقی اور عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ ماہرین کے فقدان نے صورتِ حال کو اور پیچیدہ کردیا ہے۔
آزاد کشمیر کی ایک افسر نے کہاکہ حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے منصوبہ یا تجویز جمع کرانے میں مسلسل تاخیر ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے یہ اندیشہ بڑھ رہا ہے کہ خطہ جی سی ایف فنڈنگ سے محروم رہ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک منصوبہ تیار بھی نہیں کیا گیا جمع کروانا تو بہت دور کی بات ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے حکومت کی عدم دلچسپی اور ماہرین کے فقدان کو قرار دیا۔
انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 2015 میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات میں ایک “گرین کلائمیٹ سیل” قائم کیا گیا تھا۔
اس سیل میں ڈائریکٹر جنرل، ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر اور دو اسسٹنٹ ڈائریکٹرز شامل تھے، اسی سیل نے’’آزاد کشمیر ماحولیاتی پالیسی عملدرآمد کمیٹی‘‘کا نوٹیفکیشن جاری کروایا۔
بعد ازاں 2017 میں ’’آزاد کشمیر ماحولیاتی تبدیلی کی پالیسی‘‘ تیار کی گئی۔ اس پالیسی پر عملدرآمد کے لیے’’ماحولیاتی تبدیلی کی حکمت عملی‘‘اور’’عملی منصوبہ‘‘ بھی تشکیل دیا گیا۔
تاہم پالیسی پر عملدرآمد کا مرحلہ آنے سے پہلے ہی تقریباً ساڑھے تین برس بعد یعنی 2019 میں، اس سیل میں ڈائریکٹر جنرل، ڈائریکٹر اور دو اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کے عہدے ختم کر دئیے گئے اور اس سیل کو ادارہ برائے تحفظِ ماحولیات میں منتقل کر دیا گیا۔
اب یہ صورتِ حال ہے کہ اس سیل میں صرف ایک ڈپٹی ڈائریکٹر موجود ہیں، جبکہ دیگر اہم عہدے خالی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات میں بھی ماہرین کی کمی ہے، جس کے باعث جی سی ایف میں منصوبے یا تجویز جمع کرانے کے لیے کام نہیں ہو رہا اور مستقبل قریب میں بھی اس کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔
ماحولیاتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت کا رویہ نہایت ہی مایوس کن ہے کیونکہ وہ ایک قیمتی موقع ضائع کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت کو اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ بین الاقوامی مالی معاونت تک رسائی میں آزاد کشمیر کو پہلے بھی کئی رکاوٹوں کا سامنا رہا ہے۔
دستاویزات کے مطابق حکومت آزاد کشمیر نے 2019 میں عالمی اتحاد برائے تحفظ فطرت (آئی سی یو این) کے توسط سے 37 ملین ڈالر مالیت کا ایک منصوبہ گرین کلائمیٹ فنڈ میں پیش کیا تھا۔
آئی سی یو این اس فنڈ کے ساتھ منظور شدہ ادارہ ہے، اس لیے تجویز اس کے ذریعے جمع کرائی گئی تھی تاہم فنڈ کی جانب سے یہ تجویز اس بنیاد پر مسترد کر دی گئی کہ آزاد کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔
اسی نوعیت کی صورتِ حال 2021 میں بھی سامنے آئی، جب عالمی بینک نے بھی اسی بنیاد پر فنڈنگ سے انکار کیا تھا۔
یہ اب عیاں ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت کی طرف سے منصوبہ یا تجویز جمع کرانے میں تاخیر ہو سکتی ہے اور مالی مدد حاصل کرنے میں بھی وقت لگ سکتا ہے۔
اگر آزاد کشمیر کی حکومت جی سی ایف سے مالی مدد حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوتی ہے تو کیا صرف بیرونی مالی معاونت پر انحصار کرتے ہوئے آزاد کشمیر موسمیاتی تبدیلی جیسے سنگین چیلنج کا سامنا کر سکتا ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ گرین کلائمیٹ فنڈ تک رسائی ایک اہم پیش رفت ہے، لیکن یہ تنہا کافی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک خطے میں ادارہ جاتی نظام کو مضبوط نہیں بنایا جاتا، اس وقت تک کوئی بھی مالی مدد دیرپا نتائج نہیں دے سکتی۔
آزاد کشمیر کے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات میں کلائمیٹ چینج سیل کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سردار محمد رفیق خان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی معاونت اگرچہ بہت اہم ہے، مگر اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے آزاد کشمیر کو ادارہ جاتی سطح پر خود کو مضبوط کرنا ہوگا اور گرین کلائمیٹ فنڈ کی اکریڈیشن بھی ضروری ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آزاد کشمیر کے گلیشیئرز گزشتہ دو عشروں کے دوران خطرناک حد تک پگھل چکے ہیں۔
اس کی بنیادی وجوہات میں درجہ حرارت میں اضافہ، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، زمین کی سطح کا گرم ہونا، موسموں میں بے ترتیبی، اور انسانی سرگرمیاں شامل ہیں۔ آزاد کشمیر میں صرف وادی نیلم میں گلیشئیرز پائے جاتے ہیں۔
وادی نیلم جو برف پوش پہاڑوں، سرسبز میدانوں، جھیلوں اور دریاؤں کے حسن کے لیے مشہور ہے، اب غیر معمولی ماحولیاتی چیلنجوں کا شکار ہو چکی ہے۔
گلیشیئرز کے پگھلنے سے نہ صرف مقامی ماحولیاتی نظام متاثر ہو رہا ہے بلکہ آبی وسائل اور زراعت بھی شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی آبادی ایندھن کے لیے جنگلات پر انحصار کرتی ہے اور جنگلات کی غیر قانونی کٹائی بھی ہو رہی ہے جو صورتحال کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔
ماحولیاتی امور کے ماہر ڈاکٹر سردار محمد رفیق خان کی ایک تحقیق کے مطابق سال 2000 میں گلیشیئرز کا کل رقبہ 15110 ہیکٹر تھا۔ 2010 تک یہ رقبہ کم ہو کر 13520 ہیکٹر رہ گیا
یعنی 10 سال میں 1590 ہیکٹر کی کمی ہوئی، جو سالانہ اوسطاً 159 ہیکٹر بنتی ہے۔ 2010 سے 2017 تک یہ رقبہ مزید کم ہو کر 11350 ہیکٹر رہ گیا۔ 7 برسوں میں 2170 ہیکٹر کی کمی ہوئی جو سالانہ اوسطاً 309 ہیکٹر بنتی ہے۔
مجموعی طور پر سنہ 2000 سے سنہ 2017 کے دوران گلیشیئرز کے رقبے میں تقریباً 9.24 فیصد کمی ہو چکی ہے یعنی سالانہ اوسط 220 ہیکٹر کمی ہوئی۔
اگر گلیشئیرز سالانہ 220 ہیکٹر کی رفتار سے پگھلتے رہے تو 2025 تک مزید 1760 ہیکٹر رقبہ ختم ہو چکا ہوگا اور مجموعی طور پر 5520 ہیکٹر ختم ہو چکا ہوگا جو مجموعی رقبے کا تقریباً 37 فیصد بنتا ہے۔
اگر صورتحال جوں کی توں برقرار رہی، تو آئندہ 43 سالوں یعنی 2069 تک یہ گلیشیئرز مکمل طور پر ختم ہو سکتے ہیں۔
اگر یہ گلیشئیرز سالانہ 309 ہیکٹر کی رفتار سے پگھلتے رہے تو اگلے 29 سال میں یہ گلیشئرز پگھل جائیں گے۔
اس صورت حال کے باوجود آزاد کشمیر کی حکومت کا رویہ بہت ہی غیر ذمہ دارانہ ہے جس نے پورے خطے کے وجود کو خطرہ میں ڈالا ہے۔