مظفرآباد(ذوالفقار علی+کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم)آزاد کشمیر کی حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد لوکل گورنمنٹ ترقیاتی بجٹ میں ایم ایل اے فنڈز ختم کرکے سوشل سیکٹر پرائم منسٹر ڈائریکٹیو پروجیکٹس کے نام سے ایک نیا پروگرام شروع کیاگیاہے۔ اس منصوبے کے تحت مالی سال 2024-25 میں 54 کروڑ 74 لاکھ 50 ہزار روپے خرچ کیے گئے۔
اس منصوبے کے تحت ہر رکن اسمبلی کو ایک کروڑ 25 لاکھ روپے فراہم کیے گئے۔ یہ رقم پہلے بھی اراکین اسمبلی کے ذریعے ہی خرچ کی جاتی تھی اور اب بھی انہی کے ذریعے خرچ ہو رہی ہے، بس نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ
29 فروری 2025 کو ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قانون کے مطابق قانون ساز اسمبلی کے اراکین کا لوکل گورنمنٹ منصوبوں سے کوئی تعلق نہیں اور دستور العمل کا بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے جس کی بنیاد پر اراکین اسمبلی کے ذریعے لوکل گورنمنٹ کا ترقیاتی بجٹ خرچ کیا جاتا تھا۔
ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ دستورالعمل کی بنیاد پر اراکین اسمبلی کے ذریعے منصوبوں کی نشاندہی اور فنڈز مختص کرنے کا عمل لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1990 کے متعلقہ دفعات کے خلاف ہے کیونکہ اس کی کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974، لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1990 اور دیگر متعلقہ نافذالعمل قوانین کی رو سے مقامی کونسلرز کو لوکل گورنمنٹ کے تحت ترقیاتی منصوبے شروع کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان کو مکمل کرنے کا خصوصی اختیار ہے اور اس مقصد کے لیے ایک وسیع ڈھانچہ فراہم کیا گیا ہے۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آئین اور مذکورہ ایکٹ کی رو سے متعلقہ حکام اس بات کے پابند ہیں کہ تمام ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز متعلقہ بلدیاتی اداروں کو مختص اور منتقل کریں۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ حکومت 1990 کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ پر من و عن عمل کرے اور ترقیاتی فنڈز صرف منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ کیے جائیں۔
عدالت نے حکومت کو لوکل گورنمنٹ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے اراکین اسمبلی کو فنڈز مختص یا جاری کرنے سے روک دیا تھا۔بظاہر یہ لگتا ہے کہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد آزاد کشمیر کی حکومت نے ایم ایل اے فنڈز کا نام تبدیل کرکے سوشل سیکٹر پرائم منسٹر ڈائریکٹیو پروجیکٹس رکھا گیا۔
واضح رہے کہ پہلے بھی ایک دستاویز ‘دستورالعمل’ کی بنیاد پر اراکین اسمبلی کے ذریعے ہی پیسے خرچ کیے جاتے تھے۔ عدالت کی طرف سے اس دستاویز کو غیر قانونی قرار دیے جانے اور لوکل گورنمنٹ کا ترقیاتی بجٹ بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ کیے جانے کے احکامات کے بعد آزاد کشمیر اسمبلی نے 30 اپریل کو اس دستورالعمل دستاویز کو قانون بنایا اور یہ متنازعہ قانون دستورالعمل برائے ترقیاتی پروگرام لوکل گورنمنٹ و یہی ترقیاتی آرڈیننس 2025 کہلاتا ہے۔ اس متنازعہ قانون کے تحت بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ ساتھ اراکین اسمبلی کے ذریعے بھی لوکل گورنمنٹ کے ترقیاتی فنڈز خرچ کیے جا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں سال محکمہ لوکل گورنمنٹ نے 4 ارب 28 کروڑ 84 لاکھ 51 ہزار روپے خرچ کیے۔ سرکاری دستاویز کے مطابق وہ منصوبے جن کی نشاندہی اراکین اسمبلی نے کی، ان پر 45 کروڑ 98 لاکھ 70 ہزار روپے خرچ کیے گئے، سوشل سیکٹر پرائم منسٹر ڈائریکٹیو پروجیکٹس کے تحت 54 کروڑ 74 لاکھ 50 ہزار روپے خرچ کیے گئے اور پرائم منسٹر کمیونٹی انفراسٹرکچر پروگرام کے تحت ایک ارب 55 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔
یہ رقم اراکین اسمبلی کے ذریعے خرچ کی گئی اور آزاد کشمیر سے منتخب ہونے والے ہر رکن اسمبلی کو مجموعی طور پر 6 کروڑ 25 لاکھ روپے فراہم کیے گئے۔ پاکستان میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کے 12 اراکین اسمبلی ہیں اور ان میں سے ہر رکن اسمبلی کو 2 کروڑ 50 لاکھ روپے فراہم کیے گئے۔
اس کے علاوہ مالی سال 2024-2025 میں بلدیاتی نمائندوں کو ایک ارب 63 کروڑ روپے فراہم کیے گئے۔
گزشتہ مالی سال کے لیے ابتدا میں لوکل گورنمنٹ کا ترقیاتی بجٹ 3 ارب 70 کروڑ تھا جس کو بعد میں 4 ارب 80 کروڑ روپے تک بڑھا دیا گیا تھا، لیکن 4 ارب 28 کروڑ 84 لاکھ 51 ہزار روپے خرچ کیے گئے۔آزاد کشمیر میں بہت سارے لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ اراکین اسمبلی کو سیاسی رشوت دی جاتی ہے لیکن حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔