مظفرآباد (کشمیر ڈیجیٹل میڈیا رپورٹ)مقبوضہ وادی ہو یا جموں، گلگت بلتستان ہو یا آزادکشمیر یہ ریاست جموں وکشمیر کی ایک اکائی ہے ، ہمارے بڑوں نے آزادکشمیراسمبلی کیلئے وادی اور جموں کی نشستوں کیلئے اقدامات اٹھائے وہ دیرپا تھے نہ کہ کسی تنگ نظری کی بنیاد پر یہ نشستیں رکھی گئیں ۔
آج کے حالات کے پیش نظرا س اکائی کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں مہاجرین جموں وکشمیر کی نشستوں کے حوالے سے جو لوگ تنقید کررہے ہیں وہ کشمیری اکائی کیخلاف ہیں ،ان خیالات کا اظہار سابق وزیروڈپٹی سپیکر قانون ساز اسمبلی سلیم بٹ کا کشمیر ڈیجیٹل کے پروگرام میں سجاد میر سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
سابق ڈپٹی سپیکر سلیم بٹ کا کہنا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی تاجر کمیٹی ہےمہاجر نشستیں تحریک آزادی کشمیر کی علامت ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے دس بارہ ہزار ممبران 2 کروڑ کا کشمیریوںکا فیصلہ کریں گے یا یواین او کرے گا۔۔ان دس بارہ ہزار ممبران کا کوئی حق نہیں کہ وہ 2 کروڑ کشمیریوں کا فیصلہ کریں۔
سابق ڈپٹی سپیکر سلیم بٹ کا کہنا تھا کہ سٹیٹ کے فیصلے ہوں گے تو بھاری اکثریت پر ہونگے۔ ایک طرف حکومت پاکستان سے 111 ارب کی سبسڈی لیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ پاکستان کا اثر و رسوخ کیوں ہے۔ جہاں سے پیسا آتا ہے اسکا اثر و رسوخ تو خودبخود ہوتا ہے۔
سابق ڈپٹی سپیکر سلیم بٹ کا کہنا تھا کہ کشمیر کے لیے 12 نشستیں والے مہاجرین نے بڑی قربانی دی ہے، جموں کے لاکھوں لوگوں کی قربانیاں دی ہیں، وہ قربانی کہاں گئی ہمارے بڑوں کے فیصلے کہاں گئے کیا ہم بڑوں کے فیصلوں کو نہیں مانتے؟۔
سلیم بٹ کا کہنا تھا کہ ہم آزادکشمیر سے جڑے ہوئے ہیں تو اس لئے کہ ہم سارے کشمیری جہاں جہاں آباد ہیں خواہ وہ اوورسیز ہیں یا مقیم پاکستان مہاجرین ہیں وہ اس کاز کی خاطر ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور اسمبلی کیلئے اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں اگر یہ سلسلہ ختم ہوگیا تو وقت آنے پر اقوام متحدہ کی قراردادوںکے مطابق اگر استصواب رائے کا معاملہ سامنےآتا ہے تو ووٹ کا حق اگر دیگر علاقوں میں مقیم کشمیریوں کو نہ ملا تو وہ اپنے حق استصواب رائے سے محروم ہوجائیںگے ۔
جنت نظیر وادی نیلم میں کشتی رانی کے مقابلے، سیاحوں نے شاردہ کا رخ کرلیا