مائیکروپلاسٹک: خاموش قاتل، جو انسانی جسم کے اندر تک جا پہنچا

(کشمیر ڈیجیٹل)انسانی صحت پر منڈلاتا ایک نیا خطرہ خاموشی سے ہماری زندگیوں میں سرایت کر چکا ہے۔ حالیہ سائنسی تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ پلاسٹک کے باریک ترین ذرات، جنہیں مائیکروپلاسٹکس کہا جاتا ہے، اب صرف زمین، پانی اور فضا میں ہی نہیں، بلکہ انسان کے جسمانی نظاموں میں بھی داخل ہو چکے ہیں۔ یہ ذرات ہمارے خون، جگر، گردوں، پھیپھڑوں، حتیٰ کہ دماغ اور تولیدی غدود تک میں موجود پائے گئے ہیں۔

عالمی تحقیقی رپورٹس کے مطابق یہ ذرات نہ صرف انسانی جسم میں خلیاتی سطح تک نقصان پہنچا سکتے ہیں بلکہ کئی خطرناک بیماریوں کی بنیاد بھی بن سکتے ہیں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اس خاموش زہر کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ مستقبل قریب میں ایک عالمی طبی بحران کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

خطرناک حد تک باریک زہر:

ماہرین کے مطابق مائیکروپلاسٹکس وہ ذرات ہوتے ہیں جن کا سائز 5 ملی میٹر سے بھی کم ہوتا ہے، جب کہ نینوپلاسٹکس ان سے کئی گنا چھوٹے ہوتے ہیں اور خلیات کے اندر تک داخل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حالیہ تجربات سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ یہ ذرات انسانی دماغ کی قدرتی حفاظتی رکاوٹ (Blood-Brain Barrier) کو بھی عبور کر لیتے ہیں۔

دل، دماغ اور گردے – سب خطرے میں!

مختلف سائنسی مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مائیکروپلاسٹکس کی موجودگی انسانی جسم میں سوزش، خلیاتی موت، ڈی این اے کو نقصان، اور ہارمونی نظام میں بگاڑ پیدا کر سکتی ہے۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں دل کا دورہ، فالج، یادداشت کی کمزوری، گردوں کی ناکامی اور دماغی امراض جیسی سنگین بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق جن افراد کی گردن کی شریانوں میں یہ ذرات پائے گئے، ان میں فالج یا ہارٹ اٹیک کے امکانات 4.5 گنا زیادہ تھے۔

دماغی صلاحیت متاثر:

ماہرین نیورولوجی کے مطابق 2024 میں انسانی دماغ میں مائیکروپلاسٹکس کی مقدار 2016 کے مقابلے میں 50 فیصد بڑھ چکی ہے۔ یہ ذرات دماغ میں سوزش پیدا کرتے ہیں، جو الزائمر یا دیگر نیورولوجیکل امراض کا سبب بن سکتی ہے۔ بعض مطالعات نے مائیکروپلاسٹکس کو مردانہ بانجھ پن اور تولیدی مسائل سے بھی جوڑا ہے، کیونکہ ان میں شامل کیمیکل جیسے BPA اور phthalates ہارمونز کے نظام میں گڑبڑ پیدا کرتے ہیں۔

جسم میں داخل ہونے کے تین بڑے ذرائع:

یہ باریک ذرات تین بڑے راستوں، خوراک،پینے کا پانی اورہواسے انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ایک بالغ فرد بغیر جانےسالانہ 78 ہزار سے 2 لاکھ 11 ہزار مائیکروپلاسٹک ذرات نگل رہا ہے ۔ اگرچہ یہ تحقیقات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں، مگر ابتدائی شواہد بتاتے ہیں کہ خطرہ بہت حقیقی اور بہت سنجیدہ ہے۔

بچاؤ ممکن ہے، مگر شعور ضروری:ماحولیاتی ماہرین اس خطرے سے بچنے کے لیے چند احتیاطی تدابیر اپنانے کی تجویز دیتے ہیں:

پلاسٹک پیکنگ والے کھانوں سے گریز کریں۔

  • نان اسٹک برتنوں کی جگہ اسٹیل یا مٹی کے برتن استعمال کریں
  • گھریلو کھانوں کو ترجیح دیں
  • فلٹر شدہ پانی پییں
  • گھروں میں صفائی کے لیے گیلا کپڑا یا فلٹر ویکیوم استعمال کریں تاکہ ہوا میں معلق ذرات کم کیے جا سکیں

سائنسی ذرائع اور تحقیقی اداروں کی تصدیق:

یہ تمام معلومات معتبر سائنسی اداروں جیسے نیچر میڈیسن، ہارورڈ میڈیکل اسکول، اسٹینفورڈ میڈیسن، نیشنل انسٹیٹیوٹس آف ہیلتھ اور BBC Future کی رپورٹس پر مبنی ہیں۔ ان رپورٹس میں ماہرین کی آرا، تحقیقاتی تجزیے اور تازہ ترین ڈیٹا کو مدِنظر رکھتے ہوئے مائیکروپلاسٹکس کو انسانی صحت کے لیے ایک غیر محسوس مگر مہلک خطرہ قرار دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ورلڈ انڈر 19 والی بال چیمپئن شپ میں پاکستان کی شاندار فتوحات کا سلسلہ جاری

Scroll to Top