گلگت بلتستان میں کم عمر بچیوں کی بابوں سے شادیاں، راولاکوٹ کاشہری گرفتار

گلگت بلتستان کے ضلع استور میں کم عمربچیوں کی عمر رسیدہ مردوں کے ساتھ جبری شادی کا انکشاف ہوا ہے اور راولاکوٹ کے علاقے تھوراڑ کے مصور نامی شخص کو ایک کم عمر لڑکی سے شادی کرنے پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق راولاکوٹ کے علاقے تھوراڑ سے تعلق رکھنے والے مصور نامی شخص جس کی عمر 50سال سے زائد ہے کی گلگت بلتستان کے علاقے استور کی ایک لڑکی سے شادی ہوئی تھی۔

مصورنامی شخص کی ایک ماہ قبل شادی ہوئی تھی ، شناختی بنوانے جانے پر لڑکی کی عمرکم نکلی اور مصورسمیت لڑکی کے والد، بھائی اور رشتہ کرانے والے شخص کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔

تھانہ میں ملزموں کے مقامی میڈیا کی جانب سے کئے گئے انٹرویو میںمصور نامی شخص کا کہنا تھا کہ میں نے ساڑھے 4لاکھ دیئے جبکہ گاڑیوں کا خرچہ شامل کرکے 5لاکھ سے زیادہ خرچ ہوئے۔

مصور نے بتایا کہ وہ لڑکی کو طلاق دینے کو تیار ہے اور اگر معلوم ہوتا کہ لڑکی کم عمر ہے تو شادی نہ کرتا جبکہ لڑکی کے والد نے شادی کرانے کے معاملہ سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا ۔

لڑکی کے بھائی نے جس نے ممکنہ طور رقم وصول کی کا کہنا تھا کہ کچھ غلط نہیں کیا میرے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔

رشتہ کرانے والےا یجنٹ کے مطابق لڑکی کی پہلے چلاس میں شادی کی تھی جو نشئی تھا جسے ڈیڑھ لاکھ دے کر طلاق لی اور میں نے ایک لاکھ لڑکی کے بھائی کو دیئے جبکہ رشتہ فیملی کی رضامندی سے ہوا۔

گلگت بلتستان اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر سعدیہ دانش نے شادی کے نام پر کم عمر بچیوں کی خریدو فروخت کو انسانی اسمگلنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمل نہ صرف غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہے بلکہ قانون کے مطابق بھی ایک سنگین جرم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: باغ پولیس کی بڑی کارروائی ، فیک آئی ڈیز کے ذریعے لڑکیوں کو بلیک میل کرنیوالا ملزم گرفتار

سعدیہ دانش نے استور سے تعلق رکھنے والی متعدد کم عمر بچیوں کی پنجاب اور آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں شادی کے نام پر منتقلی اور استحصال پر گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق اب تک 70 سے 80 ایسی شادیاں رپورٹ ہوئی ہیں جن میں بڑی عمر کے نوسرباز مردوں سے نوعمر بچیوں کی شادیاں کروائی گئیں۔

کئی کیسز میں شادیاں فوری طور پر ناکام ہو گئیں جبکہ متعدد بچیاں آج بھی ظلم، جبر اور تشدد کا سامنا کر رہی ہیں۔ حال ہی میں ایک 13 سالہ بچی کو دو مرتبہ شادی کے نام پر بیچا گیا۔

ڈپٹی اسپیکر نے اس عمل کو معاشرتی اقدار، انسانی غیرت اور والدین کے کردار پر بدنما داغ قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا بھائی جو بہنوں کے محافظ ہوتے ہیں، جب وہی چند روپوں کے عوض اپنی معصوم بچیوں کا سودا کرنے لگیں، تو انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایسے ظالم اور بے ضمیر عناصر کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں۔

دوسری طرف راولاکوٹ کے علاقے تھوراڑ سے تعلق رکھنےو الے لوگوں کا کہنا ہے کہ مصور انتہائی شریف النفس شخص ہیں ، انہوں نے رقم لڑکی کے کپڑوں وغیرہ کیلئے دی تھی۔

تھوراڑ سے ہی تعلق رکھنے والی سوشل ورکرفاطہ انور کے مطابق مصور نے انتہا غربت دیکھی، تمام عمر اپنے گھر والوں کو محنت مزدوری کرکے پالتے رہے اپنے بہن بھائیوں کی شادیاں کیں اس وجہ سے وہ متعین کردہ شادی کی عمر میں شادی نا کر سکے۔

یہ بھی پڑھیں: مظفر آباد سے جرگہ کرکے واپس لائی گئی سدرہ راولپنڈی میں اندھے انصاف کی بھینٹ چڑھ گئی

کرکٹ اور فٹ بال میں نام بنایا، کامیڈی میں اُن کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ جب لوگوں کو سوشل میڈیا اور ممیز کا پتا ہی نہیں تھا تب سے وہ اس فیلڈ میں تھے۔

فاطمہ کے مطابق مصور نے پیسے دے کر نا ہی لڑکی خریدی نا ہی اُن کا ایسا کوئی ارادہ تھا۔ بلکہ جو رقم (ساڑے چا لاکھ) ادا کی گئی تھی وہ دلہن کے کپڑوں اور زیور کے عوض دی گئی تھی اور رشتہ کروانے والی بھی لڑکی کی ایک رشتے دار ہی تھیں۔

مصور کو بتایا گیا تھا کہ جس لڑکی سے ان کی شادی ہو رہی ہے وہ طلاق یافتہ ہے اور طلاق اس وجہ سے ہوئی کہ اُس کا سابقہ شوہر نشہ کرتا تھا ، مصور لڑکی کو خود شناختی بنوانے کیلئے گلگت لے کر گئے تھے۔

Scroll to Top