موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی گلے کی سوزش، نزلہ اور کھانسی کی شکایات عام ہو گئی ہیں اور ہر دوسرا شخص ان علامات کا شکار نظر آتا ہے۔ تاہم ایک اہم سوال یہ ہے کہ آیا اس صورتحال میں اینٹی بایوٹکس کا استعمال ضروری ہے یا نہیں؟ پاکستان میں اینٹی بایوٹکس کے غیر ضروری اور غلط استعمال کا رجحان پایا جاتا ہےجو نہ صرف دوائیوں کی مزاحمت (اینٹی بایوٹک ریزسٹنس) کو بڑھا رہا ہے بلکہ ان کا بے جا استعمال مریضوں کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق گلے کی سوزش کے بیشتر کیسز وائرل انفیکشن کی وجہ سے ہوتے ہیں اور ان میں اینٹی بایوٹکس جیسی دوائیں جیسے ایزو میکس، آگمینٹین، کیلا موکس اور کلیری سیڈ بالکل مؤثر ثابت نہیں ہوتیں۔ بلکہ ان کے غیر ضروری استعمال سے جسم پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ عوام اور ڈاکٹرز دونوں کو یہ شعور دیا جائے کہ اینٹی بایوٹکس کا استعمال صرف مخصوص حالات میں کیا جانا چاہیے۔
وائرل اور بیکٹیریل انفیکشن میں فرق کیسے کریں؟
یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ اینٹی بایوٹکس صرف بیکٹیریل انفیکشن کے خلاف مؤثر ہوتی ہیں، وائرل انفیکشن میں ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ گلے کی سوزش کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے اس کی علامات پر غور کرنا ضروری ہے۔
وائرل گلے کی سوزش کی علامات کیا ہیں ؟
بخار کم درجے کا ہوتا ہے یا بالکل نہیں ہوتا،گردن میں گلٹیاں (لیمف نوڈز) سوجی ہوئی نہیں ہوتیں اورگلے کے اندر صرف سرخی نظر آتی ہے، پیپ یا پیلے رنگ کا مواد موجود نہیں ہوتا ساتھ میں نزلہ، چھینکیں اور آنکھوں کی سوزش کی شکایت ہو سکتی ہے۔
ایسی صورت میں اینٹی بایوٹکس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ڈاکٹرز کے مطابق، پیناڈول، شہد، جڑی بوٹیوں والی چائے، نمک والے پانی سے غرارے، شربت توت سیاہ اور لوزنجیز کا استعمال گلے کو سکون پہنچا سکتا ہے۔ آرام اور پانی کا زیادہ استعمال بھی بہتری میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور ایک ہفتے کے اندر طبیعت سنبھل جاتی ہے۔
بیکٹیریل گلے کی سوزش کی علامات کیا ہیں ؟
تیز بخار کا ہونا،گردن میں سوجی ہوئی گلٹیاں جو دبانے سے درد کرتی ہوں،گلے میں اندر پیلے رنگ کا مواد یا پیپ نظر آنا اور ٹانسلز کا سائز بڑا ہونا ساتھ ہی نزلہ، چھینکیں یا آنکھوں کی سوزش نہ ہونا۔ اگر گلے کی سوزش کے ساتھ یہ علامات موجود ہوں تو یہ بیکٹیریل انفیکشن ہو سکتا ہےجس کے لیے اینٹی بایوٹکس کا کورس ضروری ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کا فیصلہ خود سے کرنے کے بجائے کسی مستند ڈاکٹر سے رجوع کرنا لازمی ہے تاکہ دوائیوں کے غلط استعمال سے بچا جا سکے۔
طبی ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ پاکستان میں اینٹی بایوٹکس کا غلط استعمال ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ لوگ ذرا سی تکلیف پر خود ہی اینٹی بایوٹکس لینا شروع کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے جراثیم ان کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں، اور بعد میں جب واقعی ان دوائیوں کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ مؤثر ثابت نہیں ہوتیں۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ بیماری کی اصل نوعیت کو سمجھ کر ہی دوا کا انتخاب کریں اور بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے اینٹی بایوٹکس کا استعمال نہ کریں۔
یہ معلومات دوسروں تک بھی پہنچائیں تاکہ غیر ضروری دوائیوں کے استعمال سے بچا جا سکے اور صحت مند معاشرے کی تشکیل میں کردار ادا کیا جا سکے۔