نیویارک سٹی کی میئرشپ کی دوڑ میں زوہران ممدانی کی تاریخی پیش رفت عالمی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ وہ نہ صرف نیویارک کے پہلے مسلم بلکہ جنوبی ایشیائی پس منظر رکھنے والے پہلے امیدوار ہیں، جنہوں نے ڈیموکریٹک پرائمری میں اینڈریو کومو جیسے مضبوط امیدوار کو پیچھے چھوڑ دیا۔ زوہران کی مہم کو گراس روٹ سطح پر شاندار پذیرائی حاصل ہوئی، جس میں لاکھوں ڈونرز اور ہزاروں رضاکاروں نے کردار ادا کیا۔
زوہران ممدانی کا منشور نیویارک جیسے مہنگے شہر میں عام شہریوں کی زندگی آسان بنانے پر مرکوز ہے۔ انہوں نے کم آمدنی والے طبقات کے لیے سستی رہائش، شہر بھر میں مفت بس سروس اور چھوٹے بچوں کی نگہداشت کے لیے یونیورسل چائلڈ کیئر جیسے انقلابی اقدامات تجویز کیے ہیں۔ ان کے ان وعدوں نے انہیں متوسط طبقے، مہاجر برادریوں اور نوجوانوں میں خاصی مقبولیت دلوائی۔
ان کی مہم کے دوران ایک اور نمایاں پہلو بین الاقوامی مسائل پر ان کا دوٹوک مؤقف رہا۔ انہوں نے فلسطینی عوام کے لیے کھل کر حمایت کا اظہار کیا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث تنظیموں کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کے لیے قانون سازی بھی پیش کی۔ اگرچہ اس مؤقف پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہتے ہوئے کہا کہ وہ ہر اس نظام کے خلاف ہیں جو شہریت اور حقوق کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرے۔
زوہران کو اپنی مسلم شناخت کے باعث روزانہ اسلاموفوبیا پر مبنی دھمکیوں کا بھی سامنا رہا، جن میں ان کے خاندان کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ نیویارک پولیس ان دھمکیوں کی نفرت انگیز جرائم کے طور پر تحقیقات کر رہی ہے۔ زوہران نے اسے امریکی سیاست میں موجود تعصب کا عکس قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے نزدیک بین المذاہب ہم آہنگی اور تمام اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں پاک بحریہ کی کمیشننگ پریڈ، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی خصوصی شرکت
انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ میئر منتخب ہوئے تو نفرت انگیز جرائم کے خلاف نہ صرف سخت کارروائی ہو گی بلکہ بین المذاہب مکالمے اور برداشت کو فروغ دینے کے لیے خصوصی اقدامات بھی کیے جائیں گے۔ زوہران ممدانی کی یہ انتخابی مہم نہ صرف نیویارک بلکہ امریکہ میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی کی علامت سمجھی جا رہی ہے۔