مظفرآباد(ذوالفقار علی،کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم ( کے آئی ٹی))سرکاری دستاویزات کے مطابق مارچ 2025 تک آزاد کشمیر کی حکومت اور نیم سرکارے اداروں کے ذمے بجلی بلوں کی مد میں مجموعی طور پر 37 ارب 22 کروڑ 38 لاکھ 60 ہزار روپے واجب الادا ہیں تشویشناک ہے۔
اس میں سے دستاویزات کے مطابق 33 ارب 85 کروڑ 13 لاکھ 92 ہزار روپے صرف سرکاری محکموں کی ذمے ہے جبکہ نیم سرکاری اداروں کے ذمے 3 ارب 37 کروڑ 24 لاکھ 68 ہزار روپے ہیں۔
دستاویزات میں دیئےگئے اعداد و شمار کے مطابق جون 2024 تک آزاد کشمیر کی حکومت کے سرکاری محکموں اور اداروں کے ذمے 28 ارب 66 کروڑ 9 لاکھ 33 ہزار روپے تھے جس مین رواں سال کے پہلے نو ماہ میں یعنی مارچ 2025 تک 5 ارب 19 کروڑ 4 لاکھ 59 ہزار روپے اغافہ ہوا ۔
اس کا مطلب رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں 18 اعشاریہ 11 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اسی طرح سے دستاویزات کے مطابق جون 2024 میں نیم سرکارے داروں کے ذمے 3 ارب 5 کروڑ 01 لاکھ 33 ہزار روپے تھے جو مارچ 2025 تک بڑھ کر 3 ارب 37 کروڑ 24 لاکھ 68 ہزار روپے ہوگئے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ رواں مالی سال کی پہلے نو ماہ میں 32 کروڑ 23 لاکھ 35 ہزار روپے کا اضافہ ہوا یعنی 10 اعشاریہ 57 فیصدکا اضافہ ۔ یہ ابھی واضح نہیں کہ رواں مالی سال کے آخری تین مہینوں اپریل، مئی اور جون میں یہ بقایاجات مزید کتنے بڑھے، تاہم سرکاری ذرائع کے مطابق محکمہ برقیات کے سیکرٹری نے تمام متعلقہ محکموں کو خط لکھ کر ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے بقایا جات ادا کریں۔
یہ واضح نہیں کہ اپریل، مئی اور جون 2025 میں بقایاجات مزید کتنے بڑھے، تاہم سرکاری ذرائع کے مطابق سیکرٹری برقیات نے تمام متعلقہ محکموں کو خطوط لکھ کر فوری ادائیگی کی ہدایت کی ہے۔
حکومت اب تک اس بات کی تفصیل جاری کرنے سے گریزاں ہے کہ کن کن سرکاری اداروں کے ذمے کتنی رقم واجب الادا ہے، لیکن اطلاعات کے مطابق تقریباً تمام سرکاری اور نیم سرکاری محکمے بجلی کے بلوں کے نادہندہ ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اتنی بھاری رقم ادا کر دی جائے تو عوامی فلاح کے کئی بڑے منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں، اور ممکن ہے کہ پاکستان سے ترقیاتی گرانٹ لینے کی ضرورت بھی نہ پڑے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس تمام عرصے میں آزاد کشمیر کی حکومت ایک اہم سوال پر مسلسل خاموش رہی کہ وہ خود بجلی کے بل کیوں ادا نہیں کر رہی؟ ان کے مطابق اربوں روپے کے واجبات کے باوجود کسی بھی فورم پر کوئی وضاحت پیش نہ کرنا نہ صرف مالی بدانتظامی کا مظہر ہے بلکہ یہ ایک سنگین ادارہ جاتی اور اخلاقی غفلت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
یہ صورتحال اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ حکومت اپنے ہی ماتحت اداروں پر مالی نظم و ضبط قائم رکھنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جب سرکاری ادارے بل ادا نہ کریں تو اس کا براہِ راست نقصان ترقیاتی اخراجات، عوامی خدمات، اور فلاحی منصوبوں کو پہنچتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومتی غیر ذمہ داری نہ صرف بجٹ میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے بلکہ ایک خطرناک روایت قائم کرتی ہے کہ قانون کی خلاف ورزی صرف عوام نہیں بلکہ خود حکومت کا بھی معمول بن چکا ہے، اور وہ بھی بغیر کسی احتساب کے۔
پاکستان کو ورلڈ بینک سے ریکوڈک منصوبے کیلئے 700 ملین ڈالر قرض مل گیا