وادی لیپہ کے دلکش گاؤں “لبگراں” کے سرسبز میدانوں سے سرحد کے اس پار مقبوضہ کشمیر کا علاقہ کرناہ اپنی خاموشی میں کئی کہانیاں چھپائے ہوئے ہے، کبھی یہ دونوں علاقے ایک ہی سرزمین کا حصہ تھے جہاں لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے اور زمینیں مشترکہ تھیں مگر 1965 کی جنگ کے بعد یہ خطہ صرف جغرافیائی نہیں بلکہ جذباتی اور سماجی طور پر بھی تقسیم ہو گیا۔
لبگراں سے مقبوضہ کشمیر کے میدان اور کھیت صاف نظر آتے ہیں۔ وہاں کے لوگ اپنے روزمرہ کاموں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں، مگر ان کی موجودگی دیکھ کر ایک عجیب بے بسی کا احساس ہوتا ہے۔ ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں لیکن ان سے بات نہیں کر سکتے، ان کی آواز نہیں سن سکتے اور ان کے جذبات کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ تقسیم خاردار تاروں تک محدود نہیں بلکہ یہ ان خوابوں، یادوں اور رشتوں کی تقسیم بھی ہے جو کبھی اس خطے کے لوگوں کے دلوں میں آباد تھے۔ آج بھی زمینیں اور فصلیں ایک جیسی ہیں لیکن ان پر محنت کرنے والے ہاتھ ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن چکے ہیں۔
لبگراں کے سرسبز پہاڑوں سے کرناہ کے میدانوں تک نظر ڈالنے پر ایک ہی سوال بار بار ذہن میں آتا ہےکہ ،کیا وہاں کے لوگ بھی اسی کرب سے گزر رہے ہیں؟ کیا وہ بھی سرحد کے پار اپنے لوگوں کو دیکھ کر اپنی بے بسی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں؟
یہ کہانی صرف زمینی تقسیم کی نہیں بلکہ ان احساسات اور رشتوں کی بھی ہے جو سرحدوں کے درمیان قید ہو چکے ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جنگیں نہ صرف زمینوں کو الگ کرتی ہیں بلکہ دلوں اور خوابوں کو بھی توڑ دیتی ہیں اور نسلوں کو ایک نہ ختم ہونے والے دکھ میں مبتلا کر دیتی ہیں۔