پاکستان میں سٹار لنک کی سروس شروع نہ ہونے کی بڑی وجہ سامنے آئی ہے،ذرائع کے مطابق، ریگولیٹری قوانین اور سیکورٹی خدشات سٹار لنک کی راہ میں رکاوٹیں ہیں ۔
سٹار لنک مقامی کرنسی میں بل دینے کے لیے تیار نہیں ہے، جو ڈالر میں سبسکرپشن کی ادائیگیوں کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر کو دباؤ میں ڈال سکتا ہے۔
سٹار لنک کے ذریعے بلاک شدہ ویب سائٹس تک رسائی ممکن ہے لیکن غیر ملکی انفراسٹرکچر پر انحصار سیکورٹی کے خطرات پیدا کر سکتا ہے۔
آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ڈیٹا کے تحفظ اور سائبرسیکورٹی کے بارے میں ایک واضح پالیسی وضع کرنی ہوگی کیونکہ سٹار لنک مقامی اور قومی انٹرنیٹ گیٹ ویز سے آزادانہ طور پر کام کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ صارفین قابل اعتراض ویب سائٹس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں،سٹار لنک ریاستی فلٹرز، فائر والز اور نگرانی کے نظام کو بائی پاس کر سکتا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں :پاکستان میں ڈیجیٹل انقلاب کی راہیں ہموار، سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروسز کے آغاز کی تیاریاں
یاد رہے کہ پاکستان اسپیس ایکٹیویٹیز ریگولیٹری بورڈ نے ایلون مسک کی ملکیت والی امریکی کمپنی سٹار لنک کو این او سی جاری کیا تھا جو انٹرنیٹ اور موبائل خدمات فراہم کرتی ہے۔
پاکستان سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی دنیا میں داخل ہونے کے لئے تیار ہے اور اس سلسلے میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ سٹار لنک نے اسپیس ریگولیٹری بورڈ کی تمام ضروریات پوری کر دی ہیں، وزارت داخلہ کی منظوری کے بعد بورڈ نے اسے این او سی جاری کر دیا،امریکی کمپنی نے پاکستان میں رجسٹریشن کے تین مراحل مکمل کر لیے ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں :سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے آغاز کی طرف پہلا قدم،اسٹار لنک کو این اوسی جاری
اس نے ایس ای سی پی اور پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ سے رجسٹریشن اور خلائی سرگرمیوں کے ریگولیٹری بورڈ سے رجسٹریشن بھی حاصل کی ہے۔
آخری مرحلہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی سے رجسٹریشن حاصل کرنا ہے،پی ٹی اے کے لائسنس جاری کرنے کے بعد کمپنی خدمات شروع کرنے کے قابل ہو جائے گی۔
پی ٹی اے سٹار لنک کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات کا جائزہ لے رہا ہے،ذرائع نے مزید کہا کہ سٹار لنک سروسز موجودہ نیٹ ورک میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گی۔
پاکستان نے 2023 میں ایک قومی سیٹلائٹ پالیسی متعارف کرائی اور 2024 میں پاکستان اسپیس کمیونیکیشنز کو مضبوط بنانے کے لیے خلائی سرگرمیوں کے قوانین متعارف کرائے گئے ۔