آزاد کشمیر کے بلند و بالا پہاڑوں کی جانب ہر سال ایک قدیم روایت تازہ ہو جاتی ہے، جب خانہ بدوش بکروال اپنے ریوڑوں کے ساتھ ٹھنڈے علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ گرمیوں کے آغاز پر ہونے والی یہ موسمی ہجرت نہ صرف فطرت کے بدلتے رنگوں کی خبر دیتی ہے بلکہ اس خطے کی ثقافت، روایت اور طرزِ زندگی کا بھرپور مظہر بھی ہے۔
آزاد کشمیر کے ضلع حویلی میں رہنے والے بکروال خانہ بدوش ہر سال گرمیوں کے آغاز پر اپنے مال مویشیوں کے ساتھ پہاڑی علاقوں کی جانب ہجرت کرتے ہیں۔ یہ سفر مقامی دیسی ماہ جیٹھ میں شروع ہوتا ہے، جو مئی کے مہینے سے مطابقت رکھتا ہے اور کیتک تک جاری رہتا ہے جو عموماً ستمبر یا اکتوبر تک محیط ہوتا ہے۔
بکروال ٹولیوں کی شکل میں شہری علاقوں سے دیہی اور پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ اس دوران وہ عارضی گھروں ، جنہیں مقامی زبان میں ڈھوک کہا جاتا ہے ، میں قیام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں نہ صرف موسم خوشگوار ہوتا ہے بلکہ سرسبز چراگاہیں بھی موجود ہوتی ہیں جو ان کے مال مویشیوں کی صحت اور نشوونما کے لیے انتہائی مفید ہوتی ہیں۔
حاکم دین، بکروال خاندان کے سربراہ ہیں، بتاتے ہیں:”جیٹھ یعنی مئی میں ہمارے سیزن کا آغاز ہو جاتا ہے۔ گرمی کے آتے ہی ہم ڈھوک کی طرف نکل جاتے ہیں جہاں موسم ٹھنڈا ہوتا ہے اور چراگاہیں وسیع۔ یہ مال کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔”
اسی طرح ڈھلی باغ کے رہائشی سید، ہر سال ہجرت کرتے ہیں ،کہتے ہیں:”ہم مئی میں لسڈنہ آتے ہیں اور اکتوبر تک یہیں قیام کرتے ہیں۔ یہاں ہمارے عارضی مکان ہوتے ہیں۔ گرمیوں میں نیچے کے علاقے مال کے لیے مناسب نہیں ہوتے، اس لیے ہم پہاڑی علاقوں میں آ جاتے ہیں۔”
یہ طرزِ زندگی کوئی نیا عمل نہیں بلکہ نسل در نسل منتقل ہونے والی ایک روایت ہے۔ جدید دور میں بھی یہ روایت نہ صرف قائم ہے بلکہ مقامی ثقافت کا ایک اہم ستون بنی ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی روئنگ ٹیم کی شاندار کارکردگی،10 گولڈ میڈلز کے ساتھ نئی تاریخ رقم
بکروال خانہ بدوشوں کی یہ سالانہ ہجرت جہاں موسمی تبدیلیوں کا پتہ دیتی ہے، وہیں ایک زندہ اور متحرک ثقافت کا منظر بھی پیش کرتی ہے۔ پہاڑوں کی ٹھنڈی ہواؤں اور سبزہ زاروں میں بسی یہ زندگی آج بھی فطرت سے جڑی ہوئی ہے ، نہ صرف معاشی ضروریات کے لیے بلکہ اپنی روایات کو زندہ رکھنے کے لیے۔