کیا اعضا کی پیوندکاری سے موت روکی جا سکتی ہے؟شی جن پنگ اور پیوٹن کی غیر متوقع گفتگو

(کشمیر ڈیجیٹل)بیجنگ میں ایک عسکری پریڈ کے دوران روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ایک غیر متوقع موضوع زیر بحث آیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر بات چیت کی کہ آیا اعضا کی بار بار پیوندکاری کے ذریعے موت کو ہمیشہ کے لیے ٹالا جا سکتا ہے یا نہیں۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پیوٹن کے مترجم نے شی جن پنگ کو بتایا کہ انسانی اعضا کی بار بار پیوندکاری کے ذریعے بڑھاپے کو کم یا شاید غیر معینہ مدت تک روکا جا سکتا ہے اور ممکن ہے کہ اس صدی میں انسان کی عمر 150 سال تک پہنچ جائے۔ دونوں رہنماؤں نے اس گفتگو کے دوران مسکراتے ہوئے ردعمل دیا، تاہم سوال یہ ہے کہ آیا یہ بات صرف مذاق تھی یا اس میں کوئی سنجیدگی بھی پوشیدہ تھی۔

ماہرین کے مطابق فی الحال اعضا کی پیوندکاری کا بنیادی مقصد زندگی بچانا ہے۔ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق گزشتہ 30 برسوں میں ایک لاکھ سے زائد افراد کی جانیں اعضا کی پیوندکاری سے بچائی جا چکی ہیں۔ جدید طبی ٹیکنالوجی نے پیوند شدہ اعضا کو زیادہ عرصے تک فعال رکھنے میں مدد دی ہے، یہاں تک کہ کچھ مریضوں کے گردے 50 برس سے زائد عرصے تک درست کام کرتے رہے۔

اعداد و شمار کے مطابق گردہ زندہ ڈونر سے حاصل ہونے پر 20 سے 25 سال اور مردہ ڈونر سے 15 سے 20 سال تک چل سکتا ہے، جگر تقریباً 20 سال، دل 15 سال اور پھیپھڑے اوسطاً 10 سال تک فعال رہ سکتے ہیں۔ تاہم بار بار اعضا کی تبدیلی آسان نہیں کیونکہ ہر آپریشن شدید خطرات کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ مریضوں کو پیوندکاری کے بعد زندگی بھر قوت مدافعت کو دبانے والی ادویات لینا پڑتی ہیں جن کے سنگین سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں اور معمولی انفیکشن بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

ادھر سائنسدان نئے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ ’زینو ٹرانسپلانٹیشن‘ یعنی جانوروں سے انسانوں میں اعضا کی منتقلی پر تحقیق جاری ہے۔ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ سور کے اعضا تیار کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ انسانی جسم میں ردعمل نہ دیں۔ دو مریضوں پر ایسے تجربات کیے جا چکے ہیں جنہیں سور کا دل یا گردہ لگایا گیا، مگر دونوں بعد ازاں وفات پا گئے۔ اس کے باوجود یہ تحقیق اس شعبے میں نئے امکانات پیدا کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں انٹرنیٹ سست روی کا شکار، پی ٹی سی ایل نے وجہ بتادی

اسی طرح انسانی خلیات سے نئے اعضا پیدا کرنے پر بھی کام جاری ہے، جو مستقبل میں اعضا کی کمی کا حل بن سکتا ہے۔

Scroll to Top