کشمیری سنتور کی آخری صدا، غلام محمد زاز کا فن اور صبر آزما جدوجہد

(کشمیر ڈیجیٹل)کشمیری شہر سرینگر کی پرانی تنگ گلیوں میں قائم غلام محمد زاز کی صدی پُرانی دکان نہ صرف ساز سازی کی آخری علامت ہے بلکہ ایک خاموش مگر مضبوط روایت کی گواہ بھی ہے۔

اس چھوٹے سے کمرے میں غلام محمد زاز ایک کھوکھلے لکڑی کے بلاک اور پرانے لوہے کے اوزاروں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق، “اب کوئی نہیں بچا جو یہ فن جاری رکھے، میں آخری ہوں۔”

مگر یہ ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ برسوں تک مشہور صوفی اور لوک فنکار غلام محمد زاز کے ہاتھوں بنے سنتور پر دھنیں بکھیرتے رہے۔ ان کی دکان میں آویزاں ایک تصویر میں عظیم موسیقار پنڈت شیو کمار شرما اور بھجن سوپوری ان کے بنائے گئے سازوں کے ساتھ پرفارم کرتے نظر آتے ہیں۔

سنتور کو ابتدا میں فارس (ایران) سے منسوب کیا جاتا ہے، جو بعد میں وسطی ایشیا اور دیگر خطوں سے ہوتا ہوا یہاں پہنچا۔ کشمیر میں یہ ساز ایک خاص پہچان اختیار کر گیا اور صوفی شاعری اور روایتی موسیقی کا اہم جزو بن گیا۔

موسیقی کے استاد شبیر احمد میر کے مطابق، “سنتور شروع میں صوفیانہ موسیقی  کا حصہ تھا، جس کی آواز نرم اور لوک انداز لیے ہوتی تھی۔” بعد ازاں شیو کمار شرما نے اسے کلاسیکی موسیقی میں ڈھالا، اس میں نئے تار، پل اور تکنیکیں شامل کیں۔ بھجن سوپوری نے اس میں صوفی اظہار کی گہرائی پیدا کی۔

غلام محمد زاز کو 2022 میں ان کی خدمات کے اعتراف میں بھارت کے اعلیٰ ترین شہری اعزازات میں سے ایک، پدما شری سے نوازا گیا۔ ایک تصویر میں وہ صدر دروپدی مرمو سے یہ اعزاز لیتے دکھائی دیتے ہیں۔

زاز صاحب کی پیدائش 1940 کی دہائی میں زینہ کدل کے علاقے میں ہوئی، جو کبھی کشمیری تجارت و ثقافت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ ان کے خاندان میں صدیوں سے ساز سازی کا ہنر چلتا آ رہا ہے۔ بچپن میں تعلیم کا سلسلہ صحت کے مسائل کے باعث ختم کرنا پڑا، جس کے بعد انہوں نے اپنے والد اور دادا سے سنتور سازی سیکھنا شروع کی۔

“انہوں نے مجھے صرف ساز بنانا نہیں سکھایا بلکہ یہ بھی سکھایا کہ لکڑی، ہوا اور ہاتھوں کی آواز کیسے سنی جاتی ہے۔” زاز کے بقول، “ہمارے بزرگوں کو کبھی بادشاہوں کے درباروں میں بلایا جاتا تھا اور ان سے ایسے ساز بنانے کو کہا جاتا تھا جو دلوں کو سکون دے سکیں۔”

ان کی ورکشاپ میں آج بھی لکڑی کا ایک بینچ ہے جس پر چاقو، تاریں اور ایک نامکمل سنتور کا ڈھانچہ رکھا ہوا ہے۔ فضا میں پرانی اخروٹ کی لکڑی کی خوشبو بسی ہوتی ہے، مگر کوئی مشین نظر نہیں آتی۔

ان کا ماننا ہے کہ مشین سے بنے سازوں میں وہ گرمی، گہرائی اور جذباتی آہنگ موجود نہیں جو ہاتھ سے بنے سازوں میں ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یومِ شہادت کیپٹن سرور شہید (نشانِ حیدر) پر سید عدنان فاطمی کا خراجِ عقیدت

سنتور سازی ایک صبر طلب فن ہے۔ اس کا آغاز لکڑی کے درست انتخاب سے ہوتا ہے جو کم از کم پانچ سال پرانی ہو۔ پھر اسے کھوکھلا کیا جاتا ہے تاکہ گونج بہتر ہو، ہر ایک پل (bridge) کو خاص زاویے سے تراشا اور نصب کیا جاتا ہے۔ 100 سے زائد تار جوڑنے کے بعد، اسے مکمل طور پر ہم آہنگ (tune) کرنے میں ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں۔

غلام محمد زاز کہتے ہیں: “یہ صبر اور ثابت قدمی کا فن ہے۔”

یہ رپورٹ بی بی سی پر شائع معلومات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔

Scroll to Top