مظفرآباد(ذوالفقار علی۔کشمیر ڈیجیٹل انوسٹی گیشن ٹیم)آزاد کشمیر کے محکمہ لوکل گورنمنٹ نےرواں ماہ کے دوان 18 دنوں میں 28 جون تک ترقیاتی منصوبوں پر 3 ارب 30 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے جبکہ 30 جون رات 12 تک مزید 48 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کئے جانے کا امکان ہے۔
یہ رقم 30 اپریل کو اسمبلی سے متنازعہ قانون دستورالعمل برائے ترقیاتی پروگرام لوکل گورنمنٹ و یہی ترقی آرڈیننس 2025 منظور کئے جانے کے بعد خرچ کی گئی۔ یہ قانون اس لیے متنازعہ بن گیا کیوں کہ اس قانون کے تحت اراکین اسمبلی بھی لوکل گورنمنٹ کے ترقیاتی فنڈز خرچ کرسکتے ہیں۔
رواں مالی سال کے لیے ابتدا میں لوکل گورنمنٹ کا ترقیاتی بجٹ 3 ارب 70 کروڑ مختص کیا گیا تھا جس کو بعد میں 4 ارب 80 کروڑ رپے تک بڑھا دیا گیا تھا۔
محکمہ لوکل گورنمنٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال میں یکم جولائی 2024 سے 28 جون 2025 تک 3 ارب 78 کروڑ 21 لاکھ 2 ہزار 3 سو 26 روپے خرچ کیے گئے۔ ان کا کہنا اسمبلی سے متنازعہ قانون منظور ہونے سے پہلے ابتدائی مہنیوں میں 48 کروڑ 14 لاکھ 51 ہزار 9 سو 78 روپے کیے گئے
جبکہ اپریل میں نیے قانون کی منظوری کے بعد 11 جون 2025 سے 28 جون 2025 تک 3 ارب 30 کروڑ 6 لاکھ 2 سو 58 روپے خرچ کیے گئے ۔اس میں سے کوئی 01 ارب 60 کروڑ روپے 3000 بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے استعمال کی گئی ہے جبکہ اس رقم کا زیادہ تر حصہ آزاد کشمیر کے اندر سے منتخب ہونے والے 32 اراکین اسمبلی نے دو مراحل میں خرچ کیے۔
پہلے مرحلے میں—جب اسمبلی سے نیا قانون منظور نہیں ہوا تھا—ہر رکن نے 1 کروڑ 25 لاکھ روپے خرچ کیے۔ بعد میں، اپریل 2025 میں جب اسمبلی نے نیا متنازع قانون منظور کیا، تو دوسرے مرحلے میں ہر رکن نے مزید 5 کروڑ روپے خرچ کیے۔ اس طرح ہر رکن نے مجموعی طور پر 6 کروڑ 25 لاکھ روپے ترقیاتی فنڈز سے خرچ کیے۔
اسی طرح پاکستان میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کے کوٹے پر منتخب ہونے والے 12 اراکین اسمبلی نے بھی دو مراحل میں ترقیاتی فنڈز استعمال کیے۔ پہلے مرحلے میں، ہر رکن نے 1 کروڑ 25 لاکھ روپے خرچ کیے، اور اپریل 2025 میں نیا قانون منظور ہونے کے بعد، ہر ایک نے مزید 1 کروڑ 25 لاکھ روپے خرچ کیے۔ یوں ہر رکن مجموعی طور پر 2 کروڑ 50 لاکھ روپے خرچ کر چکا ہے۔
واضح رہے کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم تین سال سے یہ رقم استعمال نہیں کررہے ہیں۔ اس رقم کا کیا کیا جاتا ہے اس کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال 30 اپریل کو آزاد کشمیر کی اسمبلی نے آزاد کشمیر کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے برعکس ایک متنازع قانون دستورالعمل برائے ترقیاتی پروگرام لوکل گورنمنٹ و یہی ترقی آرڈیننس 2025 منظور کیا جس کے تحت بلدیاتی کونسلرز کے ساتھ ساتھ اراکین اسمبلی کے ذریعےبھی لوکل گورنمنٹ کی ترقیاتی فنڈز خرچ کیے جاسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ آزاد کشمیر کی حکومتیں تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1990 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1984 میں تیار کئے گئے ایک دستاویز دستورالعمل کی بنیاد پر لوکل گورنمنٹ کے ترقیاتی منصوبوں پر اراکین اسمبلی کے ذریعے پیسہ خرچ کرتی رہی ہیں۔
31 سال بعد نومبر-دسمبر سنہ 2022 میں بلدیاتی انتخابات ہوئے لیکن اس کی باوجود دستور العمل کی بنیاد پر لوکل گورنمنٹ کا ترقیاتی بجٹ اراکین اسمبلی کے ذریعے خرچ کیا جاتا رہا۔ 2023 میں بلدیاتی نمائندوں نے اس کے خلاف ہائی کوررٹ میں رٹ دائر کی۔
یہ سلسلہ 29 فروری 2025 کو ہائی کورٹ کے فیصلہ تک جاری رہا۔ 29 فروری 2025 کو ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قانون کے مطابق اراکین قانون ساز اسمبلی کا لوکل گورنمنٹ منصوبوں سے کوئی تعلق نہیں اور دستور العمل کا بھی کوئی قانونی حثییت نہیں ہے جسکے بنیاد پر اراکین اسمبلی کو لوکل گورنمنٹ کے منصوبوں کی نشاندہی کا کردار دیا گیا۔
ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ دستورالعمل کی بنیاد پر اراکین اسمبلی کے ذریعے منصوبوں کی نشاندہی اور فنڈزمختص کرنے کا عمل ایکٹ کے متعلقہ دفعات کے خلاف ہے کیونکہ اس کی کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974 ، لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1990 اور دیگر متعلقہ نافذالعمل قوانین کی رو سےمقامی کونسلرز کو لوکل گورنمنٹ کے تحت ترقیاتی منصوبے شروع کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان کو مکمل کرنے کا خصوصی اختیار ہے اور اس مقصد کے لئے ایک وسیع ڈھانچہ فراہم کیا گیا ہے ۔
لہٰذا، ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین اور مذکورہ ایکٹ کی رو سے متعلقہ حکام اس بات کے پابند ہیں کہ تمام ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز متعلقہ بلدیاتی اداروں کو مختص اور منتقل کریں۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ حکومت 1990کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ پر من و عن عمل کرے اور ترقیاتی فنڈز صرف منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ کیے جائیں۔
عدالت نے حکومت کو لوکل گونمنٹ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے اراکین اسمبلی کو فنڈز مختص یا جاری کرنے سے روک دیا تھا۔ لیکن اس فیصلے سے قبل ہی آزاد کشمیر کی حکومت نے مالی سال 2024-2025 میں دستور العمل کی بنیاد پر اراکین اسمبلی کے ذریعے لوکل گورنمنٹ کے منصوبوں پر لگ 48 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے جاچکے تھے۔
عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ آزاد جموں کشمیر کے عبوری آئین 1974 ، لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1990 اودر دیگر متعلقہ قانونی دفعات کے تحت قانون ساز اسمبلی کے اراکین کو لوکل گورنمنٹ کی ترقیاتی منصوبوں کی نشاندہی یا مختص کرنے کے معاملات میں کسی قسم کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے ۔
لیکن عدالت کے اس فیصلے نے حکومت کو پریشان کیا کیوں کہ اس فیصلے سے پہلے آزاد کشمیر کی حکومتیں کالعدم قرار دی جانے والی دستاویز دستور العمل کے ذریعے ہی اراکین اسمبلی کے ذریعے لوکل گورنمنٹ کی ترقیاتی بجٹ خرچ کرتی تھیں اور حکومت یہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ سارا پیسہ بلدیاتی نمائندوں کی ذریعے خرچ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت کے واضح ہدایت کے باوجود چوہدری الوارلحق کی مخلوط حکومت نے عدالت کے فیصلے کے صرف دو ماہ بعد 30 اپریل کو اسی دستورالعمل کو اسمبلی سے منظور کراکے قانون بنایا۔
مخلوط حکومت میں شامل تمام جماعتوں — پاکستان تحریک انصاف ( فارورڈ بلاک)، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی —نے اس قانون کی حمایت کی۔ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی)، جو خطے میں بلدیاتی نظام کی داعی سمجھی جاتی ہے، اس موقع پر حکومتی صف میں شامل رہی۔
واضح رہے کہ پہلے بھی ایک دستاویز ‘دستورالعمل’ کی بنیاد پر اراکین اسمبلی کے ذریعے ہی پیسے خرچ کیے جاتے تھے، اور اب بھی وہی عمل جاری ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے یہ سب بغیر کسی قانونی حیثیت کے ہوتا تھا، اور اب اسی دستورالعمل کو باقاعدہ قانون بنا کر اس کے تحت فنڈز خرچ کیے جا رہے ہیں۔
وفاقی حکومت کا بجلی بلوں سے ’’الیکٹریسٹی ڈیوٹی‘‘ ختم کرنے کا فیصلہ