یورپی دباؤ اور پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات کے بعد ٹرمپ کا ایران پر حملے کا فیصلہ مؤخر

واشنگٹن سے موصولہ اطلاعات کے مطابق یورپی ممالک کی جانب سے سفارتی کوششوں اور پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر ممکنہ فوجی حملے کا فیصلہ دو ہفتوں کیلئے مؤخر کر دیا ہے۔

غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق فرانسیسی قیادت نے امریکی پالیسی سازوں پر واضح کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کو سفارتی ذرائع سے حل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس یورپی دباؤ اور پاکستانی عسکری قیادت کے ساتھ رابطے نے واشنگٹن میں پالیسی سازوں کو اس مسئلے پر بار بار غور و خوض کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کھلے الفاظ میں اپنی پوزیشن کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی کے تصور یا کسی عسکری مہم جوئی کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ ایران تنازعے کا واحد حل مذاکرات اور سفارتکاری میں مضمر ہے اور دنیا کو فوجی طاقت کے استعمال سے باز رہنا چاہیے۔ فرانس سمیت دیگر یورپی اتحادیوں نے اس معاملے میں اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ تو وہ ایران میں حکومتی تبدیلی کا ساتھ دیں گے اور نہ ہی کسی حملے میں شریک ہوں گے۔ یورپی قیادت کا اصرار ہے کہ اس پیچیدہ معاملے کا پُرامن حل تلاش کرنے کے لیے سفارتی روابط کو فروغ دینا لازم ہے۔ ادھر امریکی پالیسی ساز حلقوں میں اس یورپی مؤقف نے سنجیدہ بحث چھیڑ دی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یورپ کا دباؤ امریکی مؤقف کو یکسر بدلنے کے لیے کافی نہیں، لیکن اس نے واشنگٹن میں فیصلہ سازوں کو اس اقدام کے نتائج پر دو سے تین بار سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی عسکری مہم جوئی سے قبل امریکہ نے دو ہفتوں کا مزید وقت مانگ لیا ہے تاکہ اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کر سکے اور سفارتی آپشنز پر دوبارہ غور کرے۔

دوسری جانب، برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے مشرقِ وسطیٰ میں موجودہ کشیدہ حالات کو نہایت نازک قرار دیا اور کہا کہ ٹرمپ کا حملے کا فیصلہ مؤخر کرنا ایک اہم موقع ہے تاکہ سفارتی حل تلاش کیا جا سکے۔ لیمی کا کہنا تھا کہ دنیا کو اس وقت اس مسئلے کے پُرامن حل کی طرف بڑھنا ہوگا تاکہ خطے میں امن و امان قائم رہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ واقعی ایران پر دباؤ بڑھانا یا حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کا سارا بوجھ خود امریکہ پر ہوگا، کیونکہ یورپی اتحادی کسی فوجی کارروائی میں شریک نہیں ہوں گے۔

امریکہ اس حوالے سے سرمایہ کاری کرنے میں محتاط نظر آ رہا ہے اور وہ اس بحران کو یورپی سفارتی حلقوں پر چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس دوران، یورپ اپنی سفارتی کوششوں کو تیز تر کر رہا ہے تاکہ کوئی قابلِ قبول حل نکل سکے اور مزید کشیدگی کا خطرہ ٹل جائے۔ مجموعی طور پر موجودہ حالات میں دو ہفتوں کی مہلت نے تمام فریقین کو سفارتی کوششوں کا ایک نیا موقع فراہم کر دیا ہے، تاکہ ایران اور اسرائیل کے مابین جاری کشیدگی میں کسی بڑے تصادم کی نوبت نہ آئے اور دنیا کو ایک خطرناک تنازعے سے محفوظ رکھا جا سکے۔

Scroll to Top