خطرناک ڈائٹنگ ٹرینڈز: سوشل میڈیا نوجوانوں کی صحت کے لیے خطرہ؟

دنیا بھر میں نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی صحت تیزی سے متاثر ہو رہی ہے، اور ماہرین صحت بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ سوشل میڈیا نوجوانوں کے لیے ایک سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔

ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، خاص طور پر TikTok اور Instagram، نوجوانوں میں ایسی ڈائٹنگ عادات کو فروغ دے رہے ہیں جو غیر فطری، نقصان دہ اور بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔ ان پلیٹ فارمز پر موجود “زیادہ پتلا نظر آنے” کا جنون نوجوانوں کو کھانے کی خطرناک بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے۔

Carole Copti، جو فرانس کی معروف ڈائٹیشین ہیں، کہتی ہیں کہ آج کے دور میں کسی بھی بیماری کا علاج سوشل میڈیا کے اثرات کو نظر انداز کر کے ممکن ہی نہیں رہا۔ ان کے مطابق یہ پلیٹ فارمز نہ صرف بیماری کو ہوا دیتے ہیں بلکہ صحتیابی کے عمل میں بھی بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں۔

اعداد و شمار کی سنگینی:
اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ سال 2000 سے 2018 کے درمیان دنیا میں معدے کی بیماریوں میں مبتلا افراد کی شرح 3.5 فیصد سے بڑھ کر 7.8 فیصد ہو گئی۔ یہ وہی عرصہ ہے جب سوشل میڈیا تیزی سے مقبول ہوا اور نوجوانوں کی زندگی کا لازمی حصہ بن گیا۔

خطرناک رجحانات اور سوشل میڈیا کا کردار:
TikTok پر ‘#skinnytok’ جیسے ہیش ٹیگز کے تحت لاکھوں ایسی ویڈیوز موجود ہیں جو کم کھانے، سخت ورزش اور دیگر نقصان دہ طریقوں سے وزن کم کرنے کو “مثبت” انداز میں پیش کرتی ہیں۔

فرانسیسی نرس Charlyne Buigues بتاتی ہیں کہ بہت سی نوجوان لڑکیاں اینوریکسیا (Anorexia) یا بلیمیا (Bulimia) جیسی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو کر اپنی حالت کو فخر کے ساتھ سوشل میڈیا پر دکھاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “قبض کش ادویات یا قے کے ذریعے وزن گھٹانا سوشل میڈیا پر ایک معمولی عمل دکھایا جا رہا ہے، حالانکہ یہی حرکتیں دل کی دھڑکن رکنے جیسے جان لیوا اثرات پیدا کر سکتی ہیں۔”

فرانس کی قومی صحت ایجنسی کے مطابق معدے کی بیماریاں 15 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں قبل از وقت اموات کی دوسری بڑی وجہ بن چکی ہیں۔ جب کہ Anorexia دماغی امراض میں سب سے زیادہ اموات کی ذمہ دار بیماری ہے۔

خود اعتمادی، لائکس اور بیماری کی آگ:
ماہرین کے مطابق نوجوانوں میں خود اعتمادی کی کمی، دوسروں کی تعریف کی خواہش، اور سوشل میڈیا پر لائکس، کمنٹس اور فالوورز کے پیچھے دوڑ، اس مسئلے کو اور پیچیدہ بنا رہی ہے۔

Carole Copti کہتی ہیں، “جب کوئی لڑکی پتلے جسم کے ساتھ اپنی تصویر اپلوڈ کرتی ہے اور اسے تعریفیں ملتی ہیں تو وہ اپنی بیماری کو بیماری سمجھنے سے ہی انکار کر دیتی ہے۔”

غلط معلومات اور علاج میں رکاوٹ:
ماہرین صحت اس بات پر متفق ہیں کہ سوشل میڈیا پر موجود غلط اور غیر سائنسی معلومات نے معالجین کے لیے کام مشکل بنا دیا ہے۔ نوجوان اکثر ڈاکٹرز یا ماہرین کی بات ماننے کے بجائے سوشل میڈیا پر موجود غیر تربیت یافتہ ‘فٹنس انفلوئنسرز’ کی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔

Dr Nathalie Godart کہتی ہیں، “بعض اوقات سوشل میڈیا وہ آخری دھچکا ہوتا ہے جو ذہنی طور پر کمزور نوجوان کو مکمل طور پر گرا دیتا ہے۔”

Carole Copti کہتی ہیں، “جب مریض میرے پاس آتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے میں عدالت میں بحث کر رہی ہوں۔ ایک 45 منٹ کے سیشن میں مجھے ان تمام غلط باتوں کو رد کرنا ہوتا ہے جو وہ گھنٹوں سوشل میڈیا پر دیکھ چکے ہوتے ہیں۔”

رپورٹنگ کے باوجود ویڈیوز موجود:
ماہرین کا کہنا ہے کہ بارہا رپورٹ کیے جانے کے باوجود سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نقصان دہ مواد کو ہٹانے میں ناکام رہے ہیں۔

Charlyne Buigues بتاتی ہیں، “Instagram پر خطرناک ویڈیوز رپورٹ کرنے کے باوجود وہ بدستور نظر آتی رہتی ہیں۔ یہ ایک تھکا دینے والا عمل ہے اور اکثر نتیجہ صفر ہوتا ہے۔”

انہوں نے اپنی کچھ مریضوں کو یہاں تک مشورہ دیا ہے کہ وہ TikTok جیسے ایپس کو مکمل طور پر ڈیلیٹ کر دیں۔ ان کے مطابق، “یہ مشورہ سخت لگ سکتا ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہی بہترین حل ہے۔”

یہ بھی پڑھیں:ذاتی رنجش پر قتل؟ٹک ٹاکر ثناء یوسف کا قاتل گرفتار

ماہرین کا متفقہ موقف:
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود نقصان دہ، گمراہ کن اور غیر سائنسی مواد کو مؤثر طور پر کنٹرول نہیں کیا جاتا، نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی صحت مسلسل خطرے میں رہے گی۔

Scroll to Top