مظفرآباد میں عوامی ایکشن کمیٹی کے راہنما شوکت نواز میر نے غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ سے متعلق ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی پراڈکٹ کا بائیکاٹ ہر شہری کا ذاتی فیصلہ ہو سکتا ہے، لیکن اس معاملے پر حکومتی سطح پر منظم اور مؤثر حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ ریاستی کاروبار اور محنت کشوں کے مفادات متاثر نہ ہوں۔
شوکت نواز میر کا کہنا تھا کہ غیرملکی یا صہیونی مصنوعات کا بائیکاٹ ایک انفرادی فیصلہ ضرور ہو سکتا ہے، لیکن اس حوالے سے حکومت کو مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی بھی کاروبار پر پابندی عائد کرے، لیکن اس کا طریقہ کار ایسا ہونا چاہیے کہ عوامی امن و امان، باہمی بھائی چارہ اور روزگار متاثر نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ کئی ایسی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جن سے ریاستی عوام برسوں سے وابستہ ہیں اور اپنی محنت سے روزی کما رہے ہیں، مگر چند شدت پسند عناصر ان افراد کو بزورِ طاقت کاروبار سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ ایسے اقدامات ریاست میں انتشار، بے چینی اور باہم رنجشوں کو جنم دیں گے۔
مرکزی انجمن تاجران بھی پہلے ہی اس مؤقف کا اظہار کر چکی ہے کہ صہیونی مصنوعات کا بائیکاٹ حکومت کی سطح پر ہونا چاہیے۔ اگر حکومت واقعی بائیکاٹ چاہتی ہے تو پہلے ان کاروبار سے وابستہ افراد کو متبادل روزگار فراہم کیا جائے۔ منصوبہ بندی کے بغیر اگر ان کا کاروبار بند کیا گیا تو جہاں مقامی سرمایہ کار کو نقصان پہنچے گا وہیں لاکھوں افراد کے بےروزگار ہونے کا خطرہ بھی پیدا ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی ذہین اور تخلیقی قوم ہیں، امریکا نظرانداز نہیں کرسکتا: صدر ڈونلڈ ٹرمپ
شوکت نواز میر نے عوام سے اپیل کی کہ اگر کوئی شہری کسی خاص مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنا فیصلہ ضرور برقرار رکھے، مگر کسی بھی ہم وطن کو بےروزگار کرنے، اس کی املاک کو نقصان پہنچانے یا معاشرتی نفرت اور کدورتیں پھیلانے سے گریز کرے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی فوج اتنی مضوط ہے کہ نیوکلیئر وار کی نوبت ہی نہیں آنے دے گی، بھارتی دفاعی تجزیہ نگار پرون سواہنی کا اعتراف
انہوں نے کہا کہ قومی جذبے کے ساتھ ساتھ ہوش مندی اور حکمت عملی اپنانا بھی ضروری ہے تاکہ بائیکاٹ جیسے حساس معاملات میں جذباتیت کے بجائے یکجہتی، شعور اور پائیدار حکومتی اقدامات کو فروغ دیا جا سکے۔