امریکا کا بڑا فیصلہ: ویزا فیس ایک لاکھ ڈالر، پاکستان بھی متاثر

واشنگٹن (کشمیر ڈیجیٹل) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 ستمبر 2025 کو ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرتے ہوئے ایچ ون بی ویزا کی فیس میں غیر معمولی اضافہ کر دیا۔ ملازمت کے لیے امریکا آنے والے ہنرمند افراد کے لیے یہ فیس 1500 ڈالر سے بڑھا کر ایک لاکھ ڈالر مقرر کر دی گئی ہے۔

یہ فیصلہ 21 ستمبر 2025 سے نافذالعمل ہوگیا اور دنیا بھر کے تمام ممالک کے شہریوں پر یکساں لاگو ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق فیس کمپنیوں کو ادا کرنا ہوگی، انفرادی درخواست گزاروں کو نہیں۔

سب سے زیادہ متاثر کن ممالک:

اعداد و شمار کے مطابق ایچ ون بی پروگرام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے انڈیا اور چین کو اس پالیسی سے بڑا دھچکا لگے گا۔ مالی سال 2024 میں اس ویزا پر امریکا جانے والوں میں 71 فیصد کا تعلق انڈیا سے تھا، جبکہ چین کا حصہ 11.7 فیصد رہا۔ پاکستان اس فہرست میں نویں نمبر پر آیا جہاں سے صرف 0.8 فیصد افراد اس پروگرام کے تحت امریکا پہنچے۔ بھارت سے زیادہ تر سافٹ ویئر ڈویلپرز اور پروگرامرز امریکا جاتے ہیں، جبکہ پاکستان اور چین سے آئی ٹی، انجینیئرنگ اور صحت کے شعبوں کے ماہرین شامل ہوتے ہیں۔

پاکستان پر اثرات:

پاکستان سے ہر سال تقریباً 1800 سے 2000 ہنرمند ایچ ون بی ویزا کے ذریعے امریکا جاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ اور آئی ٹی کنسلٹنسی سے ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق چونکہ یہ تعداد بھارت اور چین کے مقابلے میں کم ہے، اس لیے اس فیصلے کا پاکستان کی مجموعی معیشت پر براہِ راست اثر محدود ہوگا۔ تاہم ایک لاکھ ڈالر کی بھاری فیس امریکی کمپنیوں کے لیے پاکستانی ماہرین کو اسپانسر کرنا مشکل بنا سکتی ہے، جس کے نتیجے میں مقامی یا کم لاگت والے متبادل امیدواروں کو ترجیح دی جا سکتی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف:

امریکی حکومت کے مطابق اس اقدام کا مقصد مقامی ملازمتوں کا تحفظ ہے۔ حکام نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ 2025 میں ایک بڑی آئی ٹی کمپنی کو 1700 ایچ ون بی ویزے ملے تھے، لیکن اسی سال 2400 امریکی ملازمین کو فارغ کیا گیا۔ ٹیکنالوجی ماہرین اور بین الاقوامی کمپنیوں نے اس فیصلے کو امیگریشن پالیسی میں اب تک کا سب سے مہنگا قدم قرار دیا ہے، جس سے امریکا میں ہائی اسکلڈ ٹیلنٹ کی دستیابی شدید متاثر ہو سکتی ہے۔

مستقبل کا رجحان:

امیگریشن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے بعد پاکستانی نوجوان، خصوصاً آئی ٹی پروفیشنلز، امریکا کے بجائے کینیڈا اور یورپ جیسے متبادل ممالک کا رخ کر سکتے ہیں، جہاں اسکلڈ ویزا پالیسی نسبتاً آسان اور کم لاگت پر مبنی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انگور بڑھاپے کی رفتار کم کرنے اور صحت کے تحفظ میں مددگار: تحقیق

Scroll to Top