درآمدی گاڑیوں پر 40 فیصد ٹیکس اور حادثاتی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی

اسلام آباد (کشمیر ڈیجیٹل) حکومت نے مقامی آٹو انڈسٹری کو سہارا دینے کے لیے درآمدی گاڑیوں کے حوالے سے سخت اقدامات کا اعلان کر دیا ہے۔ آئندہ ماہ سے استعمال شدہ گاڑیوں کی تجارتی درآمد کھولنے کے ساتھ 40 فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا جائے گا، جب کہ حادثاتی اور ناقص معیار کی گاڑیوں کی درآمد پر مکمل پابندی ہوگی۔

وزارتِ تجارت کے جوائنٹ سیکریٹری محمد اشفاق نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و صنعت کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے معاہدے کے تحت کیے جا رہے ہیں تاکہ مقامی انڈسٹری کو اضافی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

فی الحال پاکستان میں کمرشل بنیادوں پر گاڑیوں کی درآمد کی اجازت نہیں ہے اور زیادہ تر گاڑیاں بیگیج، گفٹ اسکیم اور رہائش کی منتقلی کے ذریعے آتی ہیں، جو مقامی مارکیٹ کی تقریباً ایک چوتھائی طلب پوری کرتی ہیں۔ صارفین مقامی گاڑیوں کی بجائے بیرونِ ملک سے آنے والی نسبتاً سستی اور حادثاتی گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پاکستان کو ستمبر سے پانچ سال پرانی گاڑیوں کی کمرشل درآمد کھولنی ہوگی، جب کہ اگلے سال جولائی تک عمر کی تمام پابندیاں ختم کر دی جائیں گی۔ مزید یہ کہ آئندہ چار سال میں 40 فیصد اضافی ٹیکس بتدریج ختم کر کے صفر تک لایا جائے گا، جبکہ چھ سے آٹھ سال پرانی گاڑیوں کی درآمد کی بھی اجازت دے دی جائے گی۔

وزارتِ تجارت کے مطابق پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت آئندہ پانچ سال میں اوسط درآمدی ڈیوٹیز 20.2 فیصد سے گھٹا کر 9.7 فیصد تک لانی ہوں گی۔ دوسری جانب پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن اور آٹو پارٹس ساز اداروں کی تنظیم نے ان اقدامات کی مخالفت کرتے ہوئے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ان فیصلوں سے مقامی صنعت متاثر ہوگی۔

انڈس موٹرز کے چیف ایگزیکٹو علی اصغر جمالی نے بتایا کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ حکومت کے بھاری ٹیکس ہیں جو 30 سے 61 فیصد تک قیمت میں شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ مقامی گاڑیاں نہ صرف مہنگی بلکہ معیار میں بھی کمزور ہیں، جس پر کمیٹی اراکین نے سخت تنقید کی۔ جمالی نے یہ بھی کہا کہ نجی شعبے کا کام روزگار فراہم کرنا نہیں بلکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے، اگر پالیسیاں نہ بدلیں تو مقامی مینوفیکچرنگ کے بجائے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد اور فروخت زیادہ منافع بخش کاروبار بن جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: مظفرآباد: ایڈہاک و عارضی ملازمین کا یکم ستمبر کو اجلاس طلب

پاک سوزوکی کے نمائندے نے بھی مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان میں گاڑی تیار کرنا محنت طلب اور مہنگا عمل ہے، اس لیے درآمد زیادہ آسان اور فائدہ مند بنتی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ صارفین کو فوری ریلیف ملنے کے بجائے مقامی صنعت کے تحفظ کو ترجیح دی جا رہی ہے اور تجارتی درآمدات کھلنے کے باوجود قیمتوں میں کمی کا امکان نہیں ہے۔

Scroll to Top