(کشمیر ڈیجیٹل)مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے غیرقانونی خاتمے کو چھ سال مکمل ہونے پر آج 5 اگست کو پاکستان، آزاد کشمیر اور دنیا بھر میں یومِ استحصال کشمیر منایا جا رہا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے آزاد کشمیر کے تمام اضلاع میں ریلیاں، احتجاجی مارچ اور جلسے منعقد کیے جا رہے ہیں ، جب کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی حریت کانفرنس کی کال پر یومِ سیاہ منایا جا رہا ہے۔
مظفرآباد میں آزاد کشمیر حکومت کے کشمیر سیل کے زیر اہتمام مرکزی احتجاجی مارچ وزیر اعظم ہاؤس سے شروع ہوا، جو گھڑی پن چوک سے ہوتا ہوا آزادی چوک پہنچا، جہاں بڑی تعداد میں خواتین، بچے، نوجوان، اور سول سوسائٹی کے نمائندے شریک تھے۔
پاسبانِ حریت کے سربراہ عزیر احمد غزالی بھی احتجاجی مارچ میں شریک ہوئے۔ آزادی چوک پہنچ کر مظاہرین نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے پتلے نذرِ آتش کیے۔ اس کے بعد مظاہرین نے آزادی چوک سے اقوام متحدہ کے فوجی مبصر مشن (قائداعظم لاج) تک مارچ کیا، جہاں انہوں نے بھارت کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف شدید نعرہ بازی کی۔
اسی موقع پر سول سیکرٹریٹ مظفرآباد کو پاکستان اور آزاد کشمیر کے پرچموں سے سجایا گیا، جس سے شہر میں قومی یکجہتی اور کشمیری عوام کی جدوجہد سے اظہارِ یکجہتی کا منظر نمایاں ہو گیا۔
ادھر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتظامیہ نے حریت کانفرنس کی کال پر یومِ سیاہ کے اعلان کے بعد سیکیورٹی سخت کر دی ہے۔ قابض فورسز نے اضافی نفری تعینات کر کے مختلف علاقوں میں نام نہاد آپریشنز شروع کر دیے ہیں۔ پوسٹرز لگنے کے بعد بھارتی انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی۔
بھارتی اقدامات کے چھ سال بعد بھی مقبوضہ کشمیر میں بے روزگاری اور غربت خطرناک حد کو چھو رہی ہے۔
بین الاقوامی سروے رپورٹس کے مطابق:
- کشمیر میں غربت کی شرح 49 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے
- بے روزگاری کی شرح 23.09 فیصد ہے
- نوجوان طبقہ بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہے
- خودکشیاں بڑھ رہی ہیں، اور احتجاجی مظاہرے جاری ہیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مودی حکومت کے زیرِ سایہ انسانی حقوق کی پامالیاں کئی گنا بڑھ چکی ہیں اور کشمیری عوام مسلسل استحصال کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی جبر کے باوجود کشمیری ڈٹے ہوئے ہیں، پاکستان ان کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹے گا: اسحاق ڈار