رٹھوعہ ہریام

رٹھوعہ ہریام پل: آزاد کشمیر حکومت کی جانب سے ویری ایشن آرڈر میں دو سال تاخیر، پاکستان کو 3 ارب روپے سے زائد کا نقصان

آزاد کشمیر کی حکومت کا کہنا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں پاکستان کی حکومت نے رٹھوعہ ہریام پل کی تعمیر کے لیے 3 ارب 30 کروڑ روپے واگزار کیے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ رواں مالی سال میں یہ پل مکمل ہوسکتا ہے۔ اس سے پہلے، فروری 2024 میں پاکستان کی قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) نے اس پل کا تیسری بار 9 ارب 58 کروڑ 27 لاکھ روپے کا نظرثانی شدہ پی سی ون منظور کیا تھا ۔

اس پل کی لمبائی 2.975 کلومیٹر ہے، جبکہ میرپور کی طرف سے اس پل تک پہنچنے کے لیے 1.925 کلومیٹر سڑک ہے اور اسلام گڑھ کی طرف سے اس پل تک پہنچنے کے لیے 2.281 کلومیٹر سڑک ہے ۔اس پل کی تعمیر آزاد کشمیر حکومت کے محکمہ تعمیرات عامہ کے پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کے ذریعے کروائی جا رہی ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اس پل کی تعمیر میں تاخیر کیوں ہوئی، اور اس پل کی لاگت 1 ارب 39 کروڑ 46 لاکھ 53 ہزار سے بڑھ کر 9 ارب 58 کروڑ 27 لاکھ تک کیسے پہنچی؟

ابتدا میں، سنہ 2006 میں پاکستان پلاننگ کمیشن نے 1 ارب 39 کروڑ 46 لاکھ 53 ہزار روپے کی لاگت سے اس پل کی تعمیر کی منظوری دی ۔ اس پل کی مضبوطی کے لیے 556 میٹر طویل کیبل اسٹے حصہ شامل تھا ۔ پل کے اس حصے کو مضبوط تاروں (کیبلز) سے ایک یا دو بڑے ستونوں کے ساتھ باندھا جانا تھا ۔

یہ کیبلز پل کو سہارا دیتی ہیں تاکہ وہ مضبوطی سے کھڑا رہے اور وزن برداشت کرے ۔ جنوری 2007 اور نومبر 2008 میں پل تک رسائی کی سڑکوں اور پل کی تعمیر کے لیے تعمیراتی کمپنیوں کی اہلیت کو جانچنے اور بولی کا عمل شروع کیا گیا ۔3 جون 2009 کو 5 ارب 81 کروڑ 94 لاکھ 36 ہزار روپے مالیت کا نظرثانی شدہ پی سی ون وزارت امورِ کشمیر و گلگت بلتستان میں جمع کرایا گیا ۔ یہ پی سی ون سب سے کم بولی دینے والے کی بنیاد پر تیار کیا گیا تھا ۔

ستمبر 2009 میں پاکستان کی مرکزی ترقیاتی ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) کے فیصلے کے تناظر میں ایک اعلیٰ سطحی تکنیکی کمیٹی قائم کی گئی، جس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ منصوبے کی لاگت کو معقول بنانے کے لیے کیبل اسٹے پل کے علاوہ کوئی متبادل حل تلاش کرے ۔ کمیٹی نے روایتی آر سی سی پری اسٹریسڈ پل کو حتمی شکل دی ۔

نیشنل انجینیئرنگ سروس پاکستان (نیسپاک) نے 2.975 کلومیٹر لمبا آر سی سی پل ڈیزائن کیا، اور مئی 2011 میں پاکستان کی قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) نے 4 ارب 23 کروڑ 28 لاکھ 55 ہزار روپے کا پی سی ون منظور کیا، اور پل کو مکمل کرنے کے لیے جون 2014 مقرر کیا گیا۔بولی کا عمل 15 جون 2011 کو شروع کیا گیا اور سب سے کم بولی دینے والے “بیسن اسکائی ویز (جوائنٹ وینچر)” کو اگست 2011 میں پل کی تعمیر کا ٹھیکہ دیا گیا ۔

پل کی سائٹ پر مستقل نگرانی کے لیے مشاورتی خدمات نیسپاک کو دی گئیں۔ کمپنی نے پل کے کام کا آغاز کیا، لیکن کمپنی نیسپاک کے ڈیزائن کے مطابق 2012-2013 کے دوران دستیاب وقت میں زیادہ پانی کی وجہ سے گہرے چینل والے علاقے میں تین گہرے گرڈز کا آر سی سی کام مکمل کرنے میں ناکام رہی۔آر سی سی پل کے کام کے دوران، نیسپاک نے 2012-2013 میں اضافی جیو ٹیکنیکل مطالعہ دوبارہ شروع کیا، اور چینل کے علاقے میں وسیع پیمانے پر اضافی آر سی سی ذیلی ڈھانچے کا کام شامل کیا ۔

اس کے پیش نظر، دسمبر 2014 میں 5 ارب 39 کروڑ 28 لاکھ 79 ہزار روپے کا نظرثانی شدہ پی سی ون وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان میں جمع کرایا گیا ۔ منصوبے کی اسٹیئرنگ کمیٹی نے 9 مارچ 2015 کو نیسپاک کی جانب سے تیار کردہ آر سی سی پل کے ڈیزائن کی تیسرے فریق سے تصدیق کروانے کی ہدایت دی ۔

تیسرے فریق سے تصدیق کے لیے اے اے ایسوسی ایٹس کراچی کو کنسلٹنٹ مقرر کیا گیا ، جنہوں نے اس پل کے ایک حصے میں 160 میٹر طویل اسٹیل پل تجویز کیا۔160 میٹر طویل اسٹیل پل کا ڈیزائن چین کی کمپنی سی بی بی آر جی نے تیار کیا ، جس کے بعد کراچی کی کمپنی اے اے ایسوسی ایٹس نے اس ڈیزائن کی جانچ کی ۔

ڈیزائن اور جانچ کرنے والے ماہرین کی فیس تعمیراتی کمپنی نے ادا کی۔اس کے پیش نظر 2016 میں 6 ارب 48 کروڑ 1 لاکھ 59 ہزار روپے کا نظرثانی شدہ پی سی ون تیار کیا گیا اور وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان میں جمع کرایا گیا ۔ وزارت امور کشمیر نے اکتوبر 2017 میں 160 میٹر اسٹیل پل کو شامل کرکے نظرثانی شدہ پی سی ون کی منظوری دی ۔

اس اسٹیل پل پر 1 ارب 4 کروڑ 38 لاکھ 67 ہزار روپے لاگت تجویز کی گئی تھی۔10 جولائی 2017 اور 6 اکتوبر 2017 کو ایکنک نے 6 ارب 48 کروڑ 1 لاکھ 59 ہزار روپے کا نظرثانی شدہ پی سی ون منظور کیا، اور اس منصوبے کی دوسری بار توسیع کرتے ہوئے جون 2018 تک وقت مقرر کیا گیا۔ آزاد کشمیر حکومت کو رقم بھی منتقل کی گئی ۔ یہاں سے ہی مشکلات پیدا ہوئیں ۔

رقم کی منظوری اور منصوبے میں دوسری بار توسیع کے باوجود، آزاد کشمیر کے محکمہ تعمیرات عامہ کے پی ایم یو کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے کمپنی کے نام 1 ارب 2 کروڑ 12 لاکھ 78 ہزار روپے کا ویری ایشن آرڈر دو سال بعد، یعنی 23 اکتوبر 2019 کو جاری کیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آزاد کشمیر حکومت نے فنڈز ہونے کے باوجود ویری ایشن آرڈر وقت پر جاری نہیں کیا، اور اس میں جان بوجھ کر دو سال کی تاخیر کی گئی ۔

ویری ایشن آرڈر تاخیر سے جاری کرنے کی وجہ سے کمپنی نے اس آرڈر میں دی گئی قیمتیں ماننے سے انکار کر دیا۔آزاد کشمیر حکومت کی لاپروائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محکمہ شاہرات کے چیف انجینئر نے ویری ایشن آرڈر کے اجرا کے ایک سال بعد ، یعنی 15 اکتوبر 2020 کو کمپنی سے میٹنگ کی، جو ناکام رہی ۔

اس کے بعد چینی کمپنی نے 30 دسمبر 2020 کو ثالثی کے لیے رجوع کیا ۔ حکومت آزاد جموں و کشمیر نے 2 فروری 2021 کو ایک کمیٹی تشکیل دی ، جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ کمپنی اور منصوبے کے حکام کے درمیان 160 میٹر طویل اسٹیل پل کی لاگت پر تنازع کو حل کرے اور منصوبے پر عمل درآمد میں تاخیر سے متعلق رپورٹ متعلقہ حکام کو پیش کرے ۔

چھ اپریل 2021 کو پاکستان کی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان نے اس منصوبے کی توسیع 30 جون 2021 تک اس شرط پر کی کہ منصوبے پر عملدرآمد میں تاخیر کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے ۔

حکومت نے محکمہ تعمیرات عامہ کے حکام اور پروجیکٹ منیجر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے پروجیکٹ منیجر کو عہدے سے ہٹاکر نیا پروجیکٹ منیجر تعینات کیا ۔ منصوبے کی مدتِ عملدرآمد میں تیسری بار توسیع ڈی ڈی ڈبلیو پی نے بھی 30 جون 2021 تک منظور کی ۔

چینی کمپنی بیسن اسکائی ویز (جوائنٹ وینچر) نے 4 مئی 2021 کو اسٹیل پل کی تعمیر کے لیے 4 ارب 16 کروڑ روپے کے نئے ریٹس جمع کروائے۔منصوبے کے کنسلٹنٹ نے اس لاگت کے تخمینے پر کچھ اعتراضات اٹھائے ۔

منصوبے کے حکام نے کمپنی سے وضاحت طلب کی ، تاہم کمپنی اس وقت تک قیمت پر بات چیت کے لیے تیار نہیں تھی جب تک اس کے دیگر مطالبات پورے نہ کیے جاتے ۔ کمپنی نے معاہدے کی شق 67.1 کے تحت کارکردگی ضمانت سے متعلق ثالثی شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے نوٹس بھی جاری کیا ۔

کمپنی نے ایمپلائر اور پی ایم یو کے حکام کے خلاف ڈسٹرکٹ کورٹ مظفرآباد ، آزاد کشمیر میں رِٹ پٹیشن بھی دائر کی۔ بعد ازاں، سرکاری دستاویزات کے مطابق ، چینی کمپنی نے پرانے نرخوں کے باعث اسٹیل پل تعمیر کرنے سے انکار کرتے ہوئے معاہدہ ختم کر دیا۔نقصان کیا ہوا؟

اگر پروجیکٹ ڈائریکٹر 2017 میں ویری ایشن آرڈر جاری کرتا تو یہ پل تقریباً 6 ارب 50 کروڑ روپے میں مکمل ہو جاتا۔ لیکن وقت پر ویری ایشن آرڈر جاری نہ ہونے کی وجہ سے اس پل کی لاگت 9 ارب 58 کروڑ 27 لاکھ روپے تک پہنچ گئی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تقریباً 3 ارب 10 کروڑ روپے کی اضافی لاگت ہوئی ۔

لیکن حکام اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ پل کی تعمیر میں تاخیر اور 3 ارب روپے سے زائد نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہ کی گئی ۔

تین سال کے تعطل کے بعد، سنہ 2024 میں اس پل پر دوبارہ کام شروع کیا گیا ، اور اس منصوبے کو مکمل کرنے کی تاریخ جون 2027 مقرر کی گئی ہے ۔ اس منصوبے میں مزید توسیع نہیں ہوگی ، اور نہ ہی مزید رقم دی جائے گی ۔ اب اس پل کو ایف ڈبلیو او تعمیر کر رہا ہے اور اس کے ڈیزائن میں بھی تبدیلی کی گئی ہے یعنی اسٹیل پل کی جگہ اب آر سی سی پل بنایا جا رہا ہے ۔

واضح رہے کہ جون 2021 تک اس پل پر 4 ارب 4 کروڑ 93 لاکھ 22 ہزار روپے خرچ کیے جا چکے تھے۔

Scroll to Top