بیٹے کا سانحہ، ایک باپ کے لیے نہ صرف ذاتی المیہ ثابت ہوا بلکہ خدمتِ خلق کے ایک عظیم مشن کا آغاز بھی بن گیا۔ ہجیرہ کے رہائشی نزر حسین نے اپنے بیٹے حافظ سیف اللہ شیخ کی وفات کے بعد زندگی کا رخ بدل دیا اور انسانیت کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔
نزر حسین کے مطابق، اُن کے بیٹے کی موت ایک موٹر سائیکل حادثے میں ہوئی۔ حادثے کے وقت بیٹے نے ہیلمٹ نہیں پہنا تھا۔ اگر وہ ہیلمٹ پہنے ہوتا تو شاید اس کی جان بچ جاتی۔ حافظ سیف اللہ شیخ کا جسم حادثے میں محفوظ رہا، مگر سر پر چوٹ لگنے کے باعث وہ جانبر نہ ہو سکا۔ یہ اندوہناک واقعہ 26 رمضان کو پیش آیا، اور آج اس سانحے کو تقریباً ڈیڑھ سال گزر چکا ہے۔
اس غم نے نزر حسین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس حادثے کو ایک مثبت مشن میں بدلیں گے۔ انہوں نے صرف 12 ہیلمٹس سے آغاز کیا، اور اب تک تقریباً 400 ہیلمٹس مفت تقسیم کر چکے ہیں۔ خاص طور پر وہ نوجوان بچوں اور موٹر سائیکل سواروں کو ہیلمٹ پہننے کی تلقین کرتے ہیں تاکہ وہ خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھ سکیں۔
نزر حسین کی خدمت صرف سڑکوں تک محدود نہیں رہی۔ انہوں نے جیلوں اور تھانوں کا رخ کیا جہاں عام طور پر نظر کم جاتی ہے۔ سٹی تھانہ راولا کوٹ میں انہوں نے قیدیوں کے لیے قالین، پینے کے صاف پانی کا بندوبست، بزرگوں کے لیے چپلیں، اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تھانے اور جیلیں اصلاح کی جگہیں ہیں، اور یہاں بھی انسانوں کو عزت اور سہولت کی ضرورت ہوتی ہے۔
نزر حسین کا ماننا ہے کہ “یہ مشن میرے بیٹے کی یاد ہے، اور جب تک زندگی ہے، میں خدمتِ خلق کا یہ مشن جاری رکھوں گا۔” وہ عوام الناس سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس کارِ خیر میں ان کا ساتھ دیں تاکہ مزید جانوں کو بچایا جا سکے اور معاشرے میں شعور بیدار کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ نے بھارتی طلبہ کے ویزے بڑی تعداد میں مسترد کر دیے، تعلیمی مستقبل خطرے میں پڑ گیا
یہ کہانی نہ صرف ایک باپ کے درد کی ہے بلکہ اس درد کو انسانیت کی بھلائی میں بدل دینے کی ایک روشن مثال بھی ہے۔