ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بھنڈی ایسی سبزی ہو سکتی ہے جو ابتدائی عمر میں زیادہ خوراک کے نتیجے میں پیدا ہونے والے طویل مدتی صحت کے مسائل سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہو۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ بھنڈی سے بھرپورغذا نے ان چوہوں میں موٹاپے، شوگر اور دماغی سوجن کو کم کرنے میں مدد دی جنہیں بچپن میں زیادہ خوراک دی گئی تھی۔
یہ تحقیق طبی جریدے برین ریسرچ میں بھنڈی سے بھرپورغذا زیادہ خوراک کے باعث پیدا ہونے والی موٹاپے کی حالت میں دماغی سوجن کو روکتی ہےکے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔
یہ تحقیق ایسے چوہوں پر کی گئی ہے جنہیں سائنس دانوں نے کم عمری سے ہی اپنی تحویل میں لے لیا تھا اور ان کی پرورش کے دوران انہیں کھانے پینے کو اچھی خوراک دی گئی تاکہ وہ عام چوہوں کے مقابلے میں موٹے ہوسکیں اور ان کے جسم بہتر نشوونما پا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: کچی پیاز صحت کا خفیہ خزانہ یا روزمرہ کی عام سبزی؟
جب یہ چوہے بڑے ہوئے تو موٹاپے کی وجہ سے ان کا وزن زیادہ تھا اور انہیں شوگر، بلڈ پریشر اور اسی طرح کے دوسرے صحت کے مسائل کا سامنا تھا جو عموماً موٹاپے کا شکار افراد میں پائے جاتے ہیں۔
تحقیق کے دوران جن چوہوں کو ایسی غذا دی گئی جس میں ڈیڑھ فیصد بھنڈی شامل تھی تو ان میں یہ مسائل نمایاں طور پر کم نوٹ کئے گئے۔ ان کے جسم میں چربی کی مقدار کم ہوئی، شوگر قابو میں آئی، پٹھے مضبوط ہوئے اور دماغی سوجن میں کمی آئی۔
سب سے اہم بات یہ کہ بھنڈی نے دماغ کے اس حصے میں انسولین کی حساسیت بحال کی جو بھوک اور توانائی کے استعمال کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایسے چوہے کم خوراک کھاتے تھے اور ان کا میٹابولزم بہتر رہا۔
یہ بھی پڑھیں: مظفر آباد میں پھل ، سبزیوں، انڈوں اور مرغی کی نئی قیمتیں جاری کردی گئیں
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھنڈی میں موجود قدرتی اجزا جیسے کیٹیچنز اور کوئرسیٹن میں سوزش کم کرنے اور انسولین کے عمل کو بہتر بنانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جن چوہوں کو بچپن میں زیادہ خوراک نہیں دی گئی تھی ان پر بھنڈی کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ فائدے خاص طور پر ان افراد کیلئے ہیں جو پہلے ہی میٹابولک خطرات سے دوچار ہوں۔
اگرچہ یہ تحقیق چوہوں پر کی گئی ہے مگر ماہرین کا خیال ہے کہ بھنڈی کو ابتدائی عمر کی غذائی حکمت عملیوں میں شامل کر کے موٹاپے اور اس سے جڑے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے البتہ انسانوں پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔