کاشف چوہدری

یہ کیسا بجٹ ہے جس میں عوام کیلئے کچھ نہیں؟ کاشف چوہدری کی کشمیر ڈیجیٹل سے گفتگو

اسلام آباد (کشمیر ڈیجیٹل )مرکزی صدر تنظیم تاجران پاکستان محمد کاشف چوہدری نے کشمیر ڈیجیٹل سے گفتگو کہا ہے کہ اس بجٹ میں ملک میں غربت کے خاتمے اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ، صنعتو ں کو بڑھانے کے لئے اور ایک عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے کوئی عملی اقدامات ہمیں نظر نہیں آئے ۔

کاشف چوہدری نے کہا کہ بجٹ سےپہلے یہ توقع تھی کہ بجٹ کے اندر قوم کو کوئی ریلیف ملے گا لیکن پیداوری لاگت کو کم کرنے کیلئے جب تک بجلی اور گیس کی قیمتوں کو کم نہ کیا جائے اور ٹیکسز کی شرح کو منصفانہ نہ کیا جائے تو پیداوری لاگت کم نہیں ہو سکتی ۔

 یہ بھی پڑھیں:شوکت نوازمیر کیلئے چیئرمین شپ کوئی معنی نہیں رکھتی،اب الیکشن یکطرفہ ہونگے، تاجررہنما

کاشف چوہدری نے کہا کہ اس بجٹ کے اند ر آئی پی پیز اور بجلی کی وہ کمپنیاں جوبغیر بجلی بنائے اس قوم کا اربوں روپے لوٹ رہی ہیں ، اُن کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ۔ اسی طریقے سے بجلی پر لگائے گئے 13قسم کے ٹیکسز کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ بجلی کے سرچارج کے حوالے سے سرچارج جو پہلے طے تھا کہ اس حد سے زیادہ حکومت نہیں لگا سکتی ۔

اب وفاقی حکومت کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ سر چارج کے 13سو ارب روپے کو قوم پر ڈالنے کے لئے جتنا سرچارج بلوں کے اند رعائد کر دے ، انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں بجلی اور گیس کی قیمت اور بڑھے گی ۔ ٹیکسز کو پہلے سے بڑھا دیا گیا ہے تو اس کے نتیجے میں جب پیداوری لاگت کم نہیں ہو گی تو سستی چیزنہیں مل سکتی ۔

اگر پیداوری لاگت کم نہیں ہوتی تو ہم عالمی منڈی میں اپنی چیزوں کو نہیں بیچ سکتے اور عالمی دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ایکسپورٹ نہیں بڑھیں گی تو پاکستان کی معاشی مشکلات کا خاتمہ کسی صورت ممکن نہیں ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ تنخواہ دار طبقہ 5سو ارب روپے کا ٹیکس دیتا ہے 499تنخواہ دار طبقے نے ٹیکس دیا ہے اور ملک کی بڑی بڑی جاگیروں کے جو مالک ہیں ڈیڑھ ڈیڑھ سو ، دو دو سو مربوں کے جو مالک ہیں ان سب کو ملا جلا کر 4 سے 5 ارب کا ٹیکس دیا ہے جب جاگیر دار ٹیکس نہیں دیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلیوں میں بیٹھے حکمران ٹیکس نہیں دیں گے تو کیوں تاجروں اور تنخواہ دار طبقے کا خون نچوڑا جا رہا ہے ؟ ایک طرف تو آپ تنخواہ دار طبقے کی تنخواہ میں 10فیصد اضافہ کرتے ہیں ، پنشنرکی پنشن کو آپ نہیں بڑھاتے ، تاجر پر ٹیکس پر ٹیکس لگا رہےہیں تو دوسری طرف آپ چیئرمین سینیٹ ، سپیکر قومی اسمبلی ، وزراء اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کی تنخواہوں میں 6سو فیصد اضافہ کرتے ہیں یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے ؟ اس لیے اس بجٹ کے اندر اس قوم میں اضطراب اور تشویش پائی جاتی ہے ۔

حالیہ بجٹ کے نتیجے میں بھی نہ تو زراعت کو اس بجٹ میں ایڈجسٹس کیا گیا نہ اس بجٹ میں صنعتکاروں اور تاجروں کو کوئی ریلیف دیا گیا نہ ہی اس بجٹ میں قوم کیلئے زندگی کی آسانی کے لئے کوئی اقدامات کیے گئے اس طرح کے بجٹوں سے ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ قرضوں کا بوجھ مزید بڑھے گا اور جب سو د اتارنے کےلئے قومی آمد کا 8ہزار 4سو ارب روپیہ خرچ کریں گے تو پھر لوگوں کو ریلیف نہیں ملے گا ، انہوں نے کہا کہ ہم عوامی بجٹ اُس کو آس دن کہیں گے جب آئی ایم ایف سے چھٹکارا پائیں گے جب قومی خزانے کا پیسہ سود کی مد میں عالی اداروں کو نہ دینا پڑے ۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت میں ترکیہ مخالف مہم، پاکستانی تاجروں کا ترکیہ کی حمایت میں اہم اعلان

انہوں نے مزید کہا کہ جب ایک عام آدمی کیلئے مفت تعلیم ، ہسپتال کے اند معیاری صحت کی سہولتوں ، ایک عام آدمی کو بجلی ، پانی ، گیس اور انفرا سٹریکچر دینے کیلئے اور ایک شہری کو تحفظ اور نوجوان کو روزگار دینے کے لیے بجٹ بنایا جائے گا تو ہم اُس کو کہیں گے کہ یہ ایک عوامی بجٹ ہے ۔ اُس وقت تک ہم جدوجہد کے مراحل میں ہی ہیں اور یہ جدوجہد اُ س وقت تک جاری رہے گی جب تک پاکستان علامہ اقبال کے خوابوں اور قائد اعظم محمد علی جناح کی جدو جہد کا ایک فلاحی اور خوشحال پاکستان نہیں بن جاتا۔

Scroll to Top