مظفرآباد(ذوالفقار علی/کشمیر انویسٹی گیشن ٹیم) پنجاب کی آبادی تقریباً 13 کروڑ ہے اور اس کا سالانہ بجٹ 53 کھرب روپے ہے۔ اس بڑے اور گنجان آباد صوبے میں حکومت کا انتظامی ڈھانچہ کچھ اس طرح ہے۔
ایک وزیر اعلیٰ، 17 وزراء اور صرف دو معاونینِ خصوصی۔ اتنی بڑی آبادی اور وسیع رقبے کے باوجود حکومت کا نظام نسبتاً سادہ اور محدود رکھا گیا ہے۔
اب نظر ڈالیں آزاد جموں و کشمیر پر یہ ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جس کی کل آبادی محض 27 لاکھ ہے،یعنی پنجاب کی آبادی کا صرف دو فیصد، اور راولپنڈی جیسے ایک ضلع سے بھی کم۔ مگر یہاں کا حکومتی حجم دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔
ایک وزیراعظم، 32 وزرا، دو مشیر، اور دو معاونینِ خصوصی۔ یعنی پنجاب سے بھی زیادہ وزرا، حالانکہ آبادی نہایت کم ہے۔
پنجاب میں کل 10 ڈویژن ہیں اور ہر ڈویژن میں ایک کمشنر تعینات ہے۔ 41 اضلاع ہیں اور ہر ضلع میں ایک ڈپٹی کمشنر موجود ہے۔ اس کے برعکس آزاد کشمیر میں 3 ڈویژن، 10 اضلاع، 10 ڈپٹی کمشنر اور 3 کمشنر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی آبادی کے لئے اتنا بڑا اور مہنگا انتظامی ڈھانچہ کیوں؟ یہ کس منطق، کس ضرورت اور کس عوامی مفاد کے تحت قائم ہے؟
سب سے حیران کن حقیقت یہ ہے کہ آزاد کشمیر کا کل رقبہ محض 13 ہزار مربع کلومیٹر ہے، جو کہ سابق ریاست جموں و کشمیر کے کل رقبے کا صرف چھ فیصد بنتا ہے۔ اس کے باوجود آزاد کشمیر کے آئین میں یہ دعویٰ درج ہے کہ یہ حکومت پوری ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ ہے — یعنی گلگت بلتستان اور بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر بھی اس دائرہ اختیار میں شامل ہیں،
حالانکہ ان علاقوں میں آزاد کشمیر کی نہ کوئی عملداری ہے، نہ وہاں کے عوام نے کبھی اسے اپنی نمائندہ حکومت تسلیم کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان اور مقبوضہ کشمیر کے اکثر شہریوں کو شاید اس آئینی دعوے کا علم بھی نہ ہو۔ یہ دعویٰ نہ زمینی حقیقت سے مطابقت رکھتا ہے، اور نہ ہی کسی اخلاقی یا سیاسی جواز پر پورا اترتا ہے۔
آزاد کشمیر میں یہ عجیب انتظامی روایت بھی ہے کہ وزیراعظم اور صدر کے دفاتر اور رہائش گاہیں مظفرآباد میں بھی موجود ہیں اور اسلام آباد میں بھی۔ یعنی ایک نہیں بلکہ دو جگہ دفاتر اور دو جگہ پروٹوکول۔ اس دوہری موجودگی سے نہ صرف عوامی وسائل پر اضافی بوجھ پڑتا ہے بلکہ یہ طرزِ حکمرانی ایک ایسے خطے میں اپنایا گیا ہے جس کی اپنی معیشت بھی گھٹنوں کے بل ہے۔
اب ذرا بجٹ کے اعداد و شمار دیکھیں۔ مالی سال 2025–2026 میں پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے دفتر کے لیے 1.46 ارب روپے، گورنر ہاؤس کے لیے 1.5 ارب روپے، اور تمام وزرا کے دفاتر کے لیے مجموعی طور پر 1 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
اس کے مقابلے میں آزاد کشمیر میں وزیراعظم سیکرٹریٹ کا بجٹ 60 کروڑ روپے، صدر سیکرٹریٹ کا 39 کروڑ روپے اور وزرا، مشیروں اور معاونین کے دفاتر کا مجموعی بجٹ 76 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔
گزشتہ مالی سال 2024–2025 میں پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے دفتر پر 23 کروڑ، گورنر ہاؤس پر 16 کروڑ، اور وزرا کے دفاتر پر 35 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
آزاد کشمیر میں وزیراعظم سیکرٹریٹ پر 31 کروڑ، صدر سیکرٹریٹ پر 37 کروڑ، اور وزرا و مشیروں کے دفاتر پر لگ بھگ 75 کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔یعنی ایک طرف 13 کروڑ کی آبادی پر محدود اخراجات، دوسری طرف 27 لاکھ کی آبادی پر کروڑوں روپے کی سیاسی شاہ خرچیاں۔
آزاد کشمیر کی کل مقامی آمدن صرف 112 ارب روپے ہے، جس کا بیشتر حصہ ٹیکسوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ خطہ 77 برس قبل وجود میں آیا، لیکن آج تک نہ یہاں کوئی مضبوط معیشت کھڑی کی جا سکی، نہ کوئی صنعتی ڈھانچہ وجود میں آیا، نہ نجی شعبہ پنپ سکا، اور نہ ہی روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو سکے۔ آج بھی یہاں کا نظام صرف تین ستونوں پر کھڑا ہے: وفاقی امداد، سرکاری نوکریاں، اور مقامی ٹیکس۔
پنجاب میں 42 محکمے ہیں اور ہر محکمے کے لیے ایک سیکریٹری تعینات ہے۔ آزاد کشمیر میں بھی 30 سے زائد محکمے موجود ہیں اور ان کے لیے 31 سیکریٹریز تعینات ہیں — حالانکہ نہ آبادی اس کی متقاضی ہے، نہ مالی وسائل، اور نہ انتظامی ضرورت۔ اس ساری سرکاری ساخت کا مقصد عوامی خدمت کے بجائے سیاسی بندر بانٹ اور عہدوں کی تقسیم نظر آتا ہے۔
آزاد کشمیر میں حکومت کا ڈھانچہ یوں بنایا گیا ہے جیسے یہ کوئی خودمختار ریاست ہو جو مالی طور پر مستحکم اور انتظامی طور پر خود کفیل ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ یہاں کا سائز، نہ معیشت، نہ وسائل اور نہ ہی کوئی سیاسی یا مالیاتی جواز اس بھاری بھرکم سیٹ اپ کی اجازت دیتا ہے۔ یہ ایک نمائشی طرز حکمرانی ہے جہاں عوامی خدمت نہیں، بلکہ اقتدار کی نمائش، پروٹوکول، اور مراعات کی تقسیم کو ترجیح دی جاتی ہے۔
یہ کسی طور پر حکمرانی نہیں، بلکہ کرپشن، اقربا پروری اور شاہ خرچیوں پر مبنی ایک باقاعدہ نظام ہے ایک ایسا نظام جو عوام کے ٹیکسوں اور وفاقی امداد کو سیاسی اشرافیہ کی عیاشیوں میں بدل دیتا ہے۔ ایک ایسا خطہ جو اپنی آمدنی سے اپنے اخراجات بھی پورے نہیں کر سکتا، وہ مہنگی لگژری گاڑیوں، بے جا پروٹوکول، شاہانہ الاونسز اور مہنگے سرکاری دفاتر پر بے دریغ خرچ کر رہا ہے۔
دوسری جانب عام شہری دن بدن بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری، بجلی کی لوڈشیڈنگ، صحت کی ناقص سہولیات، اور خستہ حال سڑکوں سے پریشان ہے۔یہ محض بدانتظامی نہیں، بلکہ وسائلِ عامہ کا مسلسل، شعوری اور منظم استحصال ہے — ایک ایسا عمل جو برسوں سے جاری ہے، بغیر کسی روک ٹوک، بغیر کسی سوال یا احتساب کے۔
آزاد کشمیر آج محض ایک ناکام انتظامی ماڈل نہیں رہا، بلکہ یہ بدعنوانی، نااہلی اور سیاسی اشرافیہ کی ذاتی جاگیر بن چکا ہے — ایک ایسی اشرافیہ جو عوام کی محرومیوں پر اپنی آسائشوں کے محل کھڑے کرتی ہے۔
محرم الحرام : امن وامان قائم رکھنے کیلئے ڈپٹی کمشنر بنیش جرال کے سخت احکامات جاری