عید کے پُرمسرت لمحات میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا لائن آف کنٹرول کا دورہ، کشمیریوں کے دلوں پر مرہم بھی ہے اور دشمن کے لیے ایک دوٹوک پیغام بھی۔ یہ محض عسکری سرگرمی نہیں بلکہ ایک جذباتی اور قومی وابستگی کا اظہار ہے، جو ہر کشمیری کے دل کی آواز ہے۔
چیئرپرسن کشمیر ویمن الرٹ فورم (کواف) سمعیہ ساجد کے قلم سے تحریر کردہ ایک جذباتی اور اثر انگیز کالم میں فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کے حالیہ دورہ لائن آف کنٹرول کو کشمیری عوام کے لیے امید کی ایک کرن قرار دیا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ یہ جو لہو بہتا ہے، یہ جو آنکھیں برس برس کے خشک ہو چکی ہیں، یہ جو ویران عید گاہیں ہیں، یہ جو سات سال سے مقبوضہ کشمیر میں عید کی نماز پر بھی پابندی ہے، یہ جو جنازوں سے پہلے اذان کے لیے گلیوں میں خاموشی چھا جاتی ہے، یہ سب گواہی دیتے ہیں کہ کشمیر آج بھی لہو میں نہایا ہوا ہے، اذیتوں کی صلیب پر چڑھا ہوا ہے اور ان سسکتی ماؤں، ٹوٹتے سروں اور جلے ہوئے آنگنوں کے بیچ اگر کہیں اُمید کی کوئی شمع جلتی ہے تو وہ پاکستان کی شکل میں، اس کے سبز ہلالی پرچم کی صورت میں اور اس کی بہادر افواج کے سربراہ، فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی صورت میں ہے۔
جنہوں نے عید کے پرمسرت لمحوں میں بھی لائن آف کنٹرول پر آ کر نہ صرف اپنی پیشہ وارانہ تیاریوں کا اظہار کیا بلکہ اہل کشمیر کو یہ بھی یقین دلایا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، تمہارے درد کو سمجھتے ہیں، تمہاری آزادی کی جدوجہد کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور تمہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے، تمہارا خون رائیگاں نہیں جائے گا، تمہارے شہداء کا لہو ایک دن رنگ ضرور لائے گا۔
وہ مزید لکھتی ہیں کہ تمہاری مائیں جنہوں نے اپنے لال صرف اس اُمید پر قربان کیے کہ پاکستان تمہیں آواز دے گا، وہ صدا سننے کا وقت قریب آ چکا ہے اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے یہ آواز ہمیں سنائی ہے کہ ہم ایک ہیں، ہم تمہارے دکھ درد کے شریک ہیں، ہم سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہیں۔ ہماری افواج عید ہو یا جنگ، ہر دم تیار ہیں، ہم وہ فوج ہیں جو محاذ پر بھی روزہ رکھتے ہیں اور مورچوں میں افطار کرتے ہیں، ہم وہ سپاہی ہیں جو سحری میں بارود کی خوشبو سونگھ کر دشمن کی بزدلی کا اندازہ لگاتے ہیں، ہم وہ قوم ہیں جو شہادت کو زندگی کی معراج سمجھتی ہے۔
اور مزید یہ کہ ہمارا سپہ سالار بھی اسی صف کا فرد ہے جو صرف وردی نہیں پہنتا بلکہ یہ وردی اس کے خون میں رچی بسی ہے، اس کا ہر قدم دشمن کے لیے ایک پیغام ہے، اس کی موجودگی ایل او سی پر محض رسمی دورہ نہیں بلکہ دشمن کے چہرے پر پڑنے والا ایک زناٹے دار طمانچہ ہے۔ کہ ہم تمہیں بخوبی جانتے ہیں، تمہارے حربے ناکام ہو چکے ہیں، اور یہ جو تم نے سات سال سے ہمارے کشمیری بھائیوں کو عید کی نماز سے بھی محروم کر رکھا ہے، ان کے سجدے چھین لیے ہیں، ان کی مسکراہٹوں پر بندوقیں تان رکھی ہیں، ان کے بچوں کو لاپتہ کر دیا ہے، ان کی بچیوں کے سروں سے چادر چھین لی ہے، تمہاری یہ بربریت تمہیں کہیں کا نہ چھوڑے گی۔
وہ کہتی ہیں کہ تم جس آگ کو کشمیر میں جلا رہے ہو وہ دہکتے انگارے بن کر تمہارے سینوں کو جلا ڈالے گی اور اس ستم کے مقابل جب ہم پاکستان کے سپہ سالار کو اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ عید مناتے دیکھتے ہیں، تو ہمارا یقین تازہ ہوتا ہے، ہماری امیدیں جاگ اٹھتی ہیں، اور ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ہم تنہا نہیں۔ ہمارے لیے قربانیاں دینے والے موجود ہیں، ہماری آنکھوں کے آنسو پوچھنے والے موجود ہیں، اور یہی فرق ہے بھارتی افواج اور افواجِ پاکستان میں۔ ایک طرف وہ فوج ہے جو مسجدوں کو گراتی ہے، قرآن پاک کو جلاتی ہے، بے گناہوں کو مارتے وقت ہنستی ہے، اور دوسری طرف وہ فوج ہے جس کا سربراہ سجدے میں اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوتا ہے۔
وہ انتہائی جذباتی انداز میں لکھتی ہیں کہ ایک طرف وہ افواج ہیں جو بچوں کے کھیلنے پر بھی گولی چلاتے ہیں، اور دوسری طرف وہ فوج ہے جو بچوں کو قرآن پڑھاتا ہے، ایک طرف وہ فوج ہے جو ماں کی کوکھ کو گولی سے چھیدتی ہے، اور دوسری طرف وہ فوج ہے جو اس ماں کی چادر کے تحفظ کے لیے اپنی جان قربان کرتی ہے۔ جو لوگ آج بھی افواج پاکستان اور ہندوستانی فوج میں فرق نہیں کرتے، انہیں شرم آنی چاہیے، انہیں تاریخ پڑھنی چاہیے، انہیں شوپیاں، کپواڑہ، پلوامہ، اننت ناگ، اور ہندواڑہ کے قبرستانوں سے سوال کرنا چاہیے، انہیں ان شہید بچوں کی ماؤں کے آنسوؤں میں جھانکنا چاہیے، جن کے بیٹے صرف اس لیے شہید کر دیے گئے کہ ان کے ہاتھ میں پاکستانی جھنڈا تھا، یا ان کے لبوں پر ‘‘پاکستان زندہ باد’’ کا نعرہ تھا۔
وہ پوچھتی ہیں کہ کیا تم نے وہ مناظر نہیں دیکھے جب کشمیری نوجوانوں نے بھارتی بندوقوں کے سائے میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے نام پر دعائیں کیں، کیا تم نے وہ منظر نہیں دیکھا جب ایک کشمیری بچی نے اپنے کمرے کی دیوار پر پاکستانی پرچم بناتے ہوئے لکھا ‘‘ہم عید تب منائیں گے جب عید کی نماز پڑھنے کی آزادی ہو گی اور پاکستان ہمارا ہو گا’’؟
یہ فقط الفاظ نہیں یہ پورے کشمیر کی صدا ہے، اور آج فیلڈ مارشل کا دورہ لائن آف کنٹرول ہمارے دلوں پر مرہم ہے، ہم جانتے ہیں وہ صرف وردی نہیں پہنتے بلکہ کشمیریوں کا درد بھی پہنتے ہیں، ان کے وجود میں ہمارے شہیدوں کا لہو بولتا ہے، اور ان کا یہ پیغام کہ ‘‘ہم سیسہ پلائی دیوار ہیں’’، دشمن کے لیے ایک اٹل پیغام ہے۔ کہ ہم بکھرے نہیں ہیں، ہم متحد ہیں، ہم ایک ہیں، ہمیں لڑانے والے خود ٹکڑوں میں بٹ جائیں گے، کشمیر کا ہر ذی شعور انسان آج بھی فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ کھڑا ہے، اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جو قوم اپنی افواج کے خلاف بولتی ہے، وہ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتی۔
کیونکہ یہی افواج پاکستان ہیں جنہوں نے 1965، 1971، کارگل اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں دے کر پاکستان کو محفوظ رکھا، اور یہی فوج آج کشمیر کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔ آج اگر کشمیری عید کی نماز نہیں پڑھ سکتے تو اس کا ذمہ دار بھارتی فوج ہے، جو ہماری عبادت گاہوں کو تالے لگاتی ہے، جو ہمارے مولویوں کو گرفتار کرتی ہے، جو ہمارے گھروں میں گھس کر بزرگوں کو بے عزت کرتی ہے، جو ہماری بیٹیوں کو اغوا کرتی ہے، اور یہی فوج وہ ہے جسے بعض نادان لوگ پاکستانی فوج کے برابر رکھتے ہیں۔ یہ سراسر جہالت ہے، ظلم اور عدل کو برابر کہنا ظلم کی حمایت ہے، اور جو پاکستان کی افواج سے محبت نہیں کرتا، وہ دراصل کشمیریوں کے خون سے بے وفائی کرتا ہے اور ہم یہ بے وفائی کبھی قبول نہیں کریں گے، ہم ہر اس شخص کے خلاف کھڑے ہوں گے جو دشمن کی زبان بولے گا۔
ہمیں اپنی افواج پر فخر ہے، ہمیں اپنے سپہ سالار فیلڈ مارشل عاصم منیر پر فخر ہے، ہمیں اس ایثار پر فخر ہے جس کے تحت وہ ہماری قربت میں آئے، ہماری زمین پر آئے، ہمارے دکھ سنے، اور ہماری عید کو اپنا سمجھا۔
یہ رشتہ محض جغرافیائی نہیں، یہ رشتہ لا الہ الا اللہ کے نعرے سے بندھا ہے، یہ رشتہ قربانی کا ہے، محبت کا ہے، شہادت کا ہے، اور آج جب ہم اپنے شہداء کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ہیں تو ان کے چہرے کھِل جاتے ہیں کہ دیکھو وہ وقت قریب ہے جب پاکستان کا سبز پرچم سری نگر میں لہرائے گا اور جو لوگ افواج پاکستان کے خلاف بولتے ہیں انہیں ایک بار شوپیاں کی ماؤں کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھنا چاہیے، انہیں ایک بار بھارتی فوج کے ہاتھوں جلی ہوئی لاشوں کی شناخت کرنا چاہیے، انہیں تب پتہ چلے گا کہ افواج پاکستان ایک رحمت ہیں۔
تحریر کے آخر میں ایک جذباتی شعر کے ذریعے اس محبت اور رشتے کو سمیٹا گیا ہے:
ظلمتوں میں جلی جو روشنی کی لو ہے
وہ تیرے وردی والے وجود کا وضو ہے
سمعیہ ساجد نے اپنے خاندانی پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ڈیوائیڈڈ فیملی سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ بات پورے یقین سے کہتی ہیں کہ کشمیر کا ہر ذی شعور فرد افواج پاکستان اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ دن دور نہیں جب سری نگر کی جامع مسجد میں عید کی نماز ادا کی جائے گی اور “پاکستان زندہ باد” کے نعروں سے فضا گونجے گی۔