امریکہ کا غیرملکی امدادی پروگرامز کی فنڈنگ معطل کرنے کا فیصلہ

امریکی حکومت نے دنیا بھر میں چلنے والے تقریباً تمام امدادی پروگراموں کی نئی فنڈنگ روکنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے اربوں ڈالر کے صحت، تعلیم، روزگار، انسداد بدعنوانی، اور سکیورٹی منصوبے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے جمعے کے روز ایک حکم نامہ جاری کیا، جس میں اسرائیل اور مصر کی فوجی امداد کے علاوہ صرف ہنگامی خوراک پروگرامز کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیر کو جاری کیے گئے ایگزیکٹو آرڈر پر عمل درآمد کرنا ہے۔امریکہ جو دنیا کا سب سے بڑا امداد فراہم کرنے والا ملک ہے، نے 2023 میں عالمی امدادی پروگرامز پر تقریباً 60 ارب ڈالر خرچ کیے تھے، جو امریکی قومی بجٹ کا ایک فیصد بنتا ہے۔

نئی فنڈنگ معطلی کے باعث زندگی بچانے والے صحت کے پروگرامز، کلینکس اور حفاظتی ٹیکوں کے منصوبے شدید متاثر ہوں گے۔ انسانی حقوق کے اداروں اور ماہرین نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام دنیا بھر کے لاکھوں خاندانوں اور بچوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن سکتا ہے۔

معطل کیے جانے والے پروگرامز میں ایڈز کے خلاف وہ مشہور عالمی منصوبہ بھی شامل ہے جس نے اب تک ڈھائی کروڑ جانیں بچانے میں کردار ادا کیا ہے۔ یہ منصوبہ، جو سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں شروع کیا گیا تھا، صرف تین ماہ تک مزید جاری رہ پائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: محکمہ جنگلات واٹرشیڈ کے ملازمین تنخواہوں سے محروم، گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت

امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی کے ایک سابق اہلکار نے کہا کہ بڑی تنظیمیں اس فیصلے کو عالمی امدادی سرگرمیوں کی فوری بندش کے مترادف سمجھ رہی ہیں۔ کچھ تنظیموں نے حکم نامے کے فوراً بعد اپنے آپریشنز معطل کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں تاکہ مزید اخراجات سے بچا جا سکے۔

آکسفیم امریکہ کے سربراہ، ایبی میکسمین نے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عالمی امداد کی بندش لاکھوں افراد، خاص طور پر بچوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔تاہم، خوراک کے ہنگامی پروگرامز، جیسے کہ سوڈان میں قحط سے متاثرہ افراد کے لیے خوراک کی فراہمی، کو اس معطلی سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔

Scroll to Top