بیجنگ (کشمیر ڈیجیٹل )چین نے متنازعہ بھارتی سرحدی علاقے پر اپنی خودمختاری کا دعویٰ مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دیہاتوں، دریاؤں اور جھیلوں سمیت 30 مقامات کے نام تبدیل کر دیئے۔
چینی وزارت برائے شہری امور نے کہا کہ اس نے زنگنان کے، جسے بھارت اروناچل پردیش کہتا ہے، 30 مقامات کے جغرافیائی ناموں کو تبدیل کرتے ہوئے معیاری طور پر ہم آہنگ کردیا ہے۔
اس پیش رفت سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس چینی اقدام سے اس کے خطہ اس پر، جسے وہ جنوبی تبت کہتا ہے، اپنے دعوے کو تقویت دی ہے۔
چین نے ایک بار پھر اروناچل پردیش بھارت کے زیرانتظام کچھ حصوں پر اپنے علاقائی دعووں کو دوبارہ ظاہر کر دیا ۔خطے کے30 سے زائد مقامات کیلئے چینی ناموں کی فہرست جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔۔
یہ تازہ ترین کارروائی پانچویں بار ہے جب بیجنگ نے ان علاقوں کے نام تبدیل کرنے کی کوشش کی جسے وہ “زنگنان” کہتے ہیں، جس کا دعویٰ تبت کے خود مختار علاقے کے حصے کے طور پر کرتا ہے۔
چینی وزارت برائے شہری امور نے کہا کہ اس نے نئے نام جغرافیائی ناموں سے متعلق ریاستی رہنما خطوط کے مطابق شائع کئے۔تبدیل کئے گئے مقامات میں 15 پہاڑ، پانچ رہائشی علاقے، چار پہاڑی راستے، دو دریا، اور جھیلیں شامل ہیں،ہر ایک چینی حروف، تبتی اور پنین میں تفویض کردہ نام، بالکل درست نقاط اور ایک اعلی ریزولوشن نقشے کے ساتھ مکمل کرلئے ہیں ۔
چین اس اقدام کو معمول کی انتظامی اپ ڈیٹ کے طور پر جواز پیش کرتا ہے، اس وقت جب پورے خطے میں دن بدن حالات بدل رہے ہیں چین نے بھارت کو ایک اور بڑا دھچکا دیدیا ہے ۔اس سے قبل بھارت کو پاکستان کے ساتھ حالیہ جھڑپ میں ایک اہم فوجی اور سفارتی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستانی آپریشن، بنیان مرصوص، نے مبینہ طور پر بھارتی افواج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور بھارت کے اندر ایک غیر معمولی لہر کو بھڑکا دیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ بیجنگ اپنے علاقائی عزائم کو دوبارہ ظاہر کرنے کے لیے بھارت کی کمزوری کے لمحے سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ نے فوری طور پر نام تبدیل کرنے کی مشق کو “بیہودہ اور مضحکہ خیز” قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور اس بات کا اعادہ کیا کہ “اروناچل پردیش ہندوستان کا اٹوٹ اور ناقابل تنسیخ حصہ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
تعلقات کو بہتر بنانے کی طرف حالیہ اشاروں کے باوجود بشمول سفارتی ملاقاتیں اور پروازیں دوبارہ شروع کرنے اور زیارت تک رسائی کے منصوبے شامل ہیں-
بیجنگ کے نام تبدیل کرنے کے اقدام نے نازک تعلقات پر ایک نیا دبائو پڑنے جارہا ہے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب چین نے علامتی کنٹرول کے ذریعے بیانیہ کو دوبارہ تیار کرنے کی کوشش کی ہو۔
2017 کے بعد سے، بیجنگ نے اروناچل پردیش میں مقامات کے نام تبدیل کرنے کے لیے متعدد فہرستیں جاری کی ہیں- 2017 میں چھ، 2021 میں 15، 2023 میں 11، اور اس سال کے شروع میں مارچ میں 30 مقامات شامل ہیں
بھارت نے مسلسل ان کوششوں کو بے معنی اشتعال انگیزی قرار دے کر مسترد کیا ہے۔’’اگر آج میں تمہارے گھر کا نام بدل دوں تو کیا وہ میرا ہو جائے گا؟‘‘ ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے گزشتہ سال بیجنگ کے کارٹوگرافک گیمز کو نئی دہلی کی جانب سے مسترد کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا۔
اس کے باوجود، بھارت کے زیر انتظام علاقوں کے نام تبدیل کرنے پر چین کا اصرار نہ صرف گہرے ہوتے ہوئے سرحدی تنازعہ کا اشارہ ہے، بلکہ ایک ایسے خطے میں جہاں بھارت کو پرانے حریفوں اور نئی حقیقتوں دونوں کی طرف سے آزمایا جا رہا ہے، وہاں چین کے زیادہ جارحانہ انداز کا اشارہ ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نام بدلنے سے اروناچل پردیش کی اٹوٹ ہندوستانی حیثیت تبدیل نہیں کی جاسکتی۔وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا، ’’ہم نے دیکھا ہے کہ چین نے ہندوستانی ریاست اروناچل پردیش میں جگہوں کا نام بدلنے کی فضول اور بے مطلب کوشش کی ہے۔
‘‘ انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کی کوششوں کو اپنے اصولی موقف کو پیش نظر رکھتے ہوئے واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔جیسوال نے اس معاملے پر میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نیا نام رکھنے سے یہ ناقابل تردید حقیقت نہیں بدلے گی کہ اروناچل پردیش ہندوستان کا لازمی اور اٹوٹ حصہ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا.
بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کا کہنا تھا کہ کسی کے گھر کا نام بدلنے وہ گھر آپ کا نہیں ہوجائے گا۔ ’اروناچل پردیش ایک ہندوستانی ریاست تھی، ہندوستانی ریاست ہے اور مستقبل میں بھی رہے گی، نام بدلنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‘
مئی 2020 سے دونوں ممالک کو الگ کرنے والی لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ تناؤ بڑھتا جا رہا ہے، جب دونوں جانب سے فوجیوں کے درمیاں جھڑپ میں کم از کم 20 بھارتی اور 4 چینی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
9 مارچ کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اروناچل پردیش کے دوران 13,000 فٹ کی بلندی پر پہاڑ میں بنائی گئی اسٹریٹجک سیلا ٹنل کا افتتاح کیا تھا، جو مشرقی سیکٹر میں ہندوستان اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کا مرکز توانگ کو ہر موسم میں رابطہ فراہم کرے گی۔
دو دن بعد یعنی 11 مارچ کو چین نے وزیر اعظم نریندر مودی کے اروناچل پردیش کے دورے پر ہندوستان کے ساتھ سفارتی احتجاج درج کرایا، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبِن نے ایک میڈیا بریفنگ میں نریندر مودی کے دورہ اروناچل پردیش سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ زنگنان کو چینی علاقہ قرار دیا تھا۔
’چینی حکومت نے کبھی بھی ہندوستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر قائم نام نہاد اروناچل پردیش کو تسلیم نہیں کیا اور اس کی سختی سے مخالفت کی ہے، چین بھارت سرحدی مسئلہ ابھی حل ہونا باقی ہے، بھارت کو چین میں زنگنان کے علاقے کو من مانی طور پر ترقی دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘
بھارت نے اس چینی احتجاج کو مسترد کر دیا ہے، دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیش نظر 70,000 ہندوستانی فوجی مسلسل پانچویں سال بھی سرحد پر موجود ہیں۔
24 اکتوبر 2021 کو چین نے ایک نیا قانون منظور کیا جو بنیادی طور پر ریاست کو سرحدی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور لوگوں کو آباد کرنے کے قابل بناتا ہے۔
یہ چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو ’مقدس اور ناقابل تسخیر‘ قرار دیتا ہے اور بیجنگ کو علاقائی سالمیت اور زمینی حدود کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے اور علاقائی خودمختاری اور زمینی حدود کو مجروح کرنے والے کسی بھی اقدام کے خلاف حفاظت اور مقابلہ کرنے کے قابل بناتا ہے۔
آذاد کشمیر پولیس کے دو ملازمین جعلی سازی کے الزام میں نوکری سے فارغ